صحیح بخاری ۔ جلد سوم ۔ کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان ۔ حدیث 2268

اللہ تعالیٰ کا قول کہ ان کے معاملات آپس کے مشورے سے طے پاتے ہیں، اور ہر کام میں ان لوگوں سے مشورہ لو، اور اس امر کا بیان کہ مشورہ عزم سے پہلے ہے اور اصل حال ظاہر ہونے سے پہلے ہے اس لئے کہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ جب آپ عزم کرلیں تو اللہ پر بھروسہ کریں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عزم کرلیں تو کسی بشر کو یہ حق نہیں کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول کے خلاف کرے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کے دن اپنے صحابہ سے مدینہ میں ٹھہر کر جنگ کرنے اور نکل کر جنگ کرنے کے متعلق مشورہ کیا، لوگوں نے نکل کر ہی جنگ کرنے کو مناسب خیال کیا، جب آپ نے اپنی زرہ پہن لی اور ارادہ کرلیا تو لوگوں نے ککہا کہ مدینہ میں ٹھہرنا ہی مناسب ہے، لیکن آپ نے عزم کرلینے کے بعد ان کی طرف توجہ نہ کی اور فرمایا کہ کسی نبی کے لئے مناسب نہیں کہ وہ زرہ پہن کر اتار دے جب تک کہ اللہ تعالی حکم نہ دیں اور آپ نے علی اور اسامہ رضی اللہ عنہما سے عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائے اجنے کے سلسلہ میں مشورہ کیا اور ان کی باتیں آپ نے سنیں یہاں تک کہ قرآن نازل ہوا تو آپ نے تہمت لگانے والوں کو کوڑے لگوائے اور ان کے اختلاف کی طرف متوجہ نہ ہوئے، بلکہ وہی فیصلہ کیا جس کا اللہ نے آپ کو حکم دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ائمہ (خلفاء) ایماندار اہل علم سے مباح امور میں مشورہ لیتے تھے تاکہ ان میں جو آسان ہو اسے اختیار کریں اور اگر کتاب یا سنت اس کو واضح کردیتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کرتے ہوئے دوسروں کی طرف متوجہ نہ ہوتے، اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں سے جہاد کا ارادہ کیا جنہوں نے زکوۃ روک دی تھی، تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ کیونکر جہاد کریں گے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جہاد کروں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہہ دیں، جب وہ لوگ لا الہ الا اللہ کہہ دیں تو ان لوگوں نے ہم سے اپنا خون اور اپنا مال محفوظ کرلیا، سوائے حق اسلام کے، تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا خدا کی قسم میں اس سےجہاد کروں گا جس نے اس چیز کے درمیان تفریق کی جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمع کیا ہے ، پھر عمر رضی اللہ عنہ بھی ان کے ہم خیال ہوگئے، ابوبکر مشورہ کی طرف متوجہ نہیں ہوئے اس لئے کہ ان کے پاس ان لوگوں کے متعلق جنہوں نے نماز اور زکوۃ میں فرق کیا اور دین اور اس کے احکام کو بدلنا چاہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم موجود تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اپنا دین بدل ڈالا تو اس کو قتل کردو اور قراء خواہ وہ بوڑھے تھے یا جوان، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مشیر تھے اور اللہ بزرگ و برتر کی کتاب (کے حکم) کے نزدیک وہ لوگ رک جانے والے تھے۔

راوی: اویسی ابراہیم , صالح , ابن شہاب , عروہ بن مسیب , و علقمہ بن وقاص , و عبیداللہ , عائشہ

حَدَّثَنَا الْأُوَيْسِيُّ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ صَالِحٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ حَدَّثَنِي عُرْوَةُ وَابْنُ الْمُسَيَّبِ وَعَلْقَمَةُ بْنُ وَقَّاصٍ وَعُبَيْدُ اللَّهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا حِينَ قَالَ لَهَا أَهْلُ الْإِفْکِ مَا قَالُوا قَالَتْ وَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ وَأُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ حِينَ اسْتَلْبَثَ الْوَحْيُ يَسْأَلُهُمَا وَهُوَ يَسْتَشِيرُهُمَا فِي فِرَاقِ أَهْلِهِ فَأَمَّا أُسَامَةُ فَأَشَارَ بِالَّذِي يَعْلَمُ مِنْ بَرَائَةِ أَهْلِهِ وَأَمَّا عَلِيٌّ فَقَالَ لَمْ يُضَيِّقْ اللَّهُ عَلَيْکَ وَالنِّسَائُ سِوَاهَا کَثِيرٌ وَسَلْ الْجَارِيَةَ تَصْدُقْکَ فَقَالَ هَلْ رَأَيْتِ مِنْ شَيْئٍ يَرِيبُکِ قَالَتْ مَا رَأَيْتُ أَمْرًا أَکْثَرَ مِنْ أَنَّهَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ تَنَامُ عَنْ عَجِينِ أَهْلِهَا فَتَأْتِي الدَّاجِنُ فَتَأْکُلُهُ فَقَامَ عَلَی الْمِنْبَرِ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ مَنْ يَعْذِرُنِي مِنْ رَجُلٍ بَلَغَنِي أَذَاهُ فِي أَهْلِي وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَی أَهْلِي إِلَّا خَيْرًا فَذَکَرَ بَرَائَةَ عَائِشَةَ وَقَالَ أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامٍ

اویسی ابراہیم، صالح، ابن شہاب، عروہ بن مسیب، و علقمہ بن وقاص، و عبیداللہ ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں جب بہتان باندھنے والوں نے ان کے متعلق کہا تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی بن ابی طالب اور اسامہ بن زید کو بلا بھیجا، جب کہ وحی اترنے میں دیر ہوئی تاکہ ان دونوں سے پوچھیں، آپ نے ان دونوں سے اپنی بیوی کو جدا کرنے کے متعلق مشورہ لینے لگے، حضرت اسامہ نے تو جس بنا پر وہ جانتے تھے، ان کی بیوی کی پاک دامنی کا مشورہ دیا لیکن حضرت علی نے کہا کہ اللہ نے آپ پر تنگی نہیں کی ان کے علاوہ بہت سی عورتیں ہیں، آپ لونڈی سے دریافت کر لیں، وہ آپ سے سچ سچ بیان کر دے گی، آپ نے فرمایا کیا تو نے کوئی ایسی بات دیکھی جو تجھے شبہ میں ڈالے، اس نے کہا کہ میں نے اس سے زیادہ نہیں دیکھا وہ کمسن ہے اپنے گھر کا آٹا گوندھ کر سو جاتی ہیں، بکری آ کر کھا جاتی ہے، آپ منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ اے مسلمانو!، کون ایسا ہے جو اس شخص کو سزا دے کر میری مدد کرے، جس نے مجھے میری بیوی کے متعلق تکلیف دی، واللہ میں اپنی بیوی کے متعلق سوائے بھلائی کے اور کچھ نہیں جانتا، پھر آپ نے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی برأت بیان فرمائی اور ابواسامہ نے ہشام سے نقل کیا۔

Narrated 'Aisha:
After the slanderers had given a forged statement against her, Allah's Apostle called 'Ali bin Abi Talib and Usama bin Zaid when the Divine Inspiration was delayed. He wanted to ask them and consult them about the question of divorcing me. Usama gave his evidence that was based on what he knew about my innocence, but 'Ali said, "Allah has not put restrictions on you and there are many women other than her. Furthermore you may ask the slave girl who will tell you the truth." So the Prophet asked Barira (my salve girl), "Have you seen anything that may arouse your suspicion?" She replied, "I have not seen anything more than that she is a little girl who sleeps, leaving the dough of her family (unguarded) that the domestic goats come and eat it." Then the Prophet stood on the pulpit and said, "O Muslims! Who will help me against the man who has harmed me by slandering my wife? By Allah, I know nothing about my family except good." The narrator added: Then the Prophet mentioned the innocence of 'Aisha. (See Hadith No. 274, Vol. 6)

یہ حدیث شیئر کریں