صحیح بخاری ۔ جلد سوم ۔ کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان ۔ حدیث 2208

اس امر کا بیان کہ باہم جھگڑا اور اس میں تعمق اور دین میں غلو اور بدعت مکروہ ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اے اہل کتاب اپنے دین میں حد سے تجاوز نہ کرو اور اللہ پر حق کے سوا کچھ نہ کہو۔

راوی: عبداللہ بن یوسف , لیث , عقیل , ابن شہاب , مالک بن اوس , نصری

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي مَالِکُ بْنُ أَوْسٍ النَّصْرِيُّ وَکَانَ مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ذَکَرَ لِي ذِکْرًا مِنْ ذَلِکَ فَدَخَلْتُ عَلَی مَالِکٍ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ انْطَلَقْتُ حَتَّی أَدْخُلَ عَلَی عُمَرَ أَتَاهُ حَاجِبُهُ يَرْفَا فَقَالَ هَلْ لَکَ فِي عُثْمَانَ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ وَالزُّبَيْرِ وَسَعْدٍ يَسْتَأْذِنُونَ قَالَ نَعَمْ فَدَخَلُوا فَسَلَّمُوا وَجَلَسُوا فَقَالَ هَلْ لَکَ فِي عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ فَأَذِنَ لَهُمَا قَالَ الْعَبَّاسُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ الظَّالِمِ اسْتَبَّا فَقَالَ الرَّهْطُ عُثْمَانُ وَأَصْحَابُهُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنَهُمَا وَأَرِحْ أَحَدَهُمَا مِنْ الْآخَرِ فَقَالَ اتَّئِدُوا أَنْشُدُکُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَائُ وَالْأَرْضُ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نُورَثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَةٌ يُرِيدُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفْسَهُ قَالَ الرَّهْطُ قَدْ قَالَ ذَلِکَ فَأَقْبَلَ عُمَرُ عَلَی عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ فَقَالَ أَنْشُدُکُمَا بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ذَلِکَ قَالَا نَعَمْ قَالَ عُمَرُ فَإِنِّي مُحَدِّثُکُمْ عَنْ هَذَا الْأَمْرِ إِنَّ اللَّهَ کَانَ خَصَّ رَسُولَهُ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْمَالِ بِشَيْئٍ لَمْ يُعْطِهِ أَحَدًا غَيْرَهُ فَإِنَّ اللَّهَ يَقُولُ مَا أَفَائَ اللَّهُ عَلَی رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ الْآيَةَ فَکَانَتْ هَذِهِ خَالِصَةً لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ وَاللَّهِ مَا احْتَازَهَا دُونَکُمْ وَلَا اسْتَأْثَرَ بِهَا عَلَيْکُمْ وَقَدْ أَعْطَاکُمُوهَا وَبَثَّهَا فِيکُمْ حَتَّی بَقِيَ مِنْهَا هَذَا الْمَالُ وَکَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ عَلَی أَهْلِهِ نَفَقَةَ سَنَتِهِمْ مِنْ هَذَا الْمَالِ ثُمَّ يَأْخُذُ مَا بَقِيَ فَيَجْعَلُهُ مَجْعَلَ مَالِ اللَّهِ فَعَمِلَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِکَ حَيَاتَهُ أَنْشُدُکُمْ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُونَ ذَلِکَ فَقَالُوا نَعَمْ ثُمَّ قَالَ لِعَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ أَنْشُدُکُمَا اللَّهَ هَلْ تَعْلَمَانِ ذَلِکَ قَالَا نَعَمْ ثُمَّ تَوَفَّی اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَبَضَهَا أَبُو بَکْرٍ فَعَمِلَ فِيهَا بِمَا عَمِلَ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْتُمَا حِينَئِذٍ وَأَقْبَلَ عَلَی عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ تَزْعُمَانِ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ فِيهَا کَذَا وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنَّهُ فِيهَا صَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ ثُمَّ تَوَفَّی اللَّهُ أَبَا بَکْرٍ فَقُلْتُ أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَکْرٍ فَقَبَضْتُهَا سَنَتَيْنِ أَعْمَلُ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَکْرٍ ثُمَّ جِئْتُمَانِي وَکَلِمَتُکُمَا عَلَی کَلِمَةٍ وَاحِدَةٍ وَأَمْرُکُمَا جَمِيعٌ جِئْتَنِي تَسْأَلُنِي نَصِيبَکَ مِنْ ابْنِ أَخِيکِ وَأَتَانِي هَذَا يَسْأَلُنِي نَصِيبَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا فَقُلْتُ إِنْ شِئْتُمَا دَفَعْتُهَا إِلَيْکُمَا عَلَی أَنَّ عَلَيْکُمَا عَهْدَ اللَّهِ وَمِيثَاقَهُ لَتَعْمَلَانِ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِمَا عَمِلَ فِيهَا أَبُو بَکْرٍ وَبِمَا عَمِلْتُ فِيهَا مُنْذُ وَلِيتُهَا وَإِلَّا فَلَا تُکَلِّمَانِي فِيهَا فَقُلْتُمَا ادْفَعْهَا إِلَيْنَا بِذَلِکَ فَدَفَعْتُهَا إِلَيْکُمَا بِذَلِکَ أَنْشُدُکُمْ بِاللَّهِ هَلْ دَفَعْتُهَا إِلَيْهِمَا بِذَلِکَ قَالَ الرَّهْطُ نَعَمْ فَأَقْبَلَ عَلَی عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ فَقَالَ أَنْشُدُکُمَا بِاللَّهِ هَلْ دَفَعْتُهَا إِلَيْکُمَا بِذَلِکَ قَالَا نَعَمْ قَالَ أَفَتَلْتَمِسَانِ مِنِّي قَضَائً غَيْرَ ذَلِکَ فَوَالَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَائُ وَالْأَرْضُ لَا أَقْضِي فِيهَا قَضَائً غَيْرَ ذَلِکَ حَتَّی تَقُومَ السَّاعَةُ فَإِنْ عَجَزْتُمَا عَنْهَا فَادْفَعَاهَا إِلَيَّ فَأَنَا أَکْفِيکُمَاهَا

عبداللہ بن یوسف، لیث، عقیل، ابن شہاب، مالک بن اوس، نصری سے روایت کرتے ہیں (محمد بن جبیر بن مطعم نے بھی اس کا ذکر کیا تھا، کہ میں مالک کے پاس گیا، ان سے پوچھا تو انہوں نے بیان کیا ) کہ میں چلا، تاکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جاؤں ، (میں پہنچا) تو ان کا دربان یرفاء آیا اور پوچھا، کیا حضرت عثمان اور عبدالرحمن اور زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سعد کو اندر آنے کی اجازت دیتے ہیں، انہوں نے کہا ہاں۔چنانچہ وہ لوگ اندر آئے سلام کیا اور بیٹھ گئے پھر یرفاء نے کہا کہ حضرت علی و حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اجازت دیتے ان دونوں کو بھی اندر آنے کی اجازت دی، حضرت عباس نے کہا کہ اے امیرالمومنین ان دونوں کے درمیان فیصلہ کر دیں، اور ایک دوسرے سے نجات پالیں، حضرت عمرنے ان سے کہا کہ صبر کرو، میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں کیا تم جانتے ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارا کوئی وارث نہ ہوگا، ہم نے جو کچھ چھوڑا وہ صدقہ ہے، اور یہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف اپنی ذات کے متعلق فرمایا ان لوگوں نے ہاں آپ نے فرمایا ہے، پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت علی و عباس کی طرف متوجہ ہوئے، اور کہا کہ میں آپ دونوں کو اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا: انہوں نے کہا ہاں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں تم لوگوں سے اس کی حقیقت بیان کر دوں، اللہ نے اپنے رسول کو اس مال میں سے ایک مخصوص حصہ عطا کیا جو آپ کے علاوہ کسی کو نہیں دیا، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، (ما افاء اللہ علی رسولہ منھم فما او جفتم) تو یہ خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے تھا، پھر اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تم لوگوں پر ترجیح دی بلکہ یہ تمہیں کو دے دیا، اور تمہیں میں تقسیم کرتا ہوں۔ حتی کہ اس میں یہ باقی مال بچ گیا، اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے گھر والوں کے لئے ایک سال کا خرچہ رکھتے تھے، پھر باقی کو اللہ کے راستے میں خرچ کر دیتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زندگی بھر اس طرح کیا، میں تم لوگوں کو اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کیا تم لوگ اس کو جانتے ہو، انہوں نے کہا ہاں، پھر اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اٹھا لیا، تو حضرت ابوبکر نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ولی ہوں، چنانچہ اس پر انہوں نے قبضہ کر لیا، اور جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کرتے تھے، اسی طرح انہوں نے بھی کیا، اور حضرت علی و ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا کہ آپ دونوں اس وقت موجود تھے، اور آپ دونوں گمان کرتے تھے، کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایسے ایسے ہیں، حالانکہ اللہ جانتا ہے، کہ وہ اس معاملہ میں سچے تھے، نیک تھے، راستی پر تھے حق کے تابع تھے، پھر اللہ نے ابوبکر کو اٹھا لیا تو میں نے کہا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابوبکر کا ولی ہوں میں نے اس کو دو سال تک اپنے قبضہ میں رکھا اور اس میں اسی طرح تصرف کرتا رہا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا کہ پھر آپ میرے پاس آئے اور آپ دونوں کی بات یکساں تھی، اور کام بھی ایک تھا، آپ اپنے بھتیجے کے مال سے حصہ مانگنے آئے، اور یہ اپنی بیوی کا حصہ اپنے والد کے مال سے مانگنے کے لئے آئے تو میں نے کہا کہ اگر آپ دونوں چاہتے ہیں تو میں آپ کو اس شرط پر دوں گا کہ آپ اللہ کے عہد و میثاق کے مطابق اس میں عمل کریں، جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کرتے تھے، اور جس طرح میں اپنے قبضے میں لینے کے وقت سے عمل کرتا رہا ہوں، ورنہ پھر اس معاملے میں مجھ سے گفتگو نہ کیجئے، تو آپ دونوں نے کہا کہ ہمیں اس شرط پر دیدو، پھر میں نے آپ کو دیدیا، پھر دوسرے لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے، فرمایا کہ میں تم لوگوں کو اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ میں نے یہاں دونوں کو دیدیا تھا؟ ان لوگوں نے کہا ہاں!۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ آپ مجھ سے اس کے علاوہ کوئی فیصلہ چاہتے ہیں، تو قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، اور جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، میں قیامت تک اس کے علاوہ کوئی فیصلہ نہ کروں گا، اگر آپ اس کے انتظام سے عاجز ہیں تو ہمیں واپس کر دیجئے میں آپ کی طرف سے اس کا انتظام کروں گا۔

Narrated Malik bin Aus An-Nasri:
I proceeded till I entered upon 'Umar (and while I was sitting there), his gate-keeper Yarfa came to him and said, " 'Uthman, 'Abdur-Rahman, Az-Zubair and Sa'd ask your permission to come in." 'Umar allowed them. So they entered, greeted, and sat down. (After a while the gatekeeper came) and said, "Shall I admit 'Ali and 'Abbas?'' 'Umar allowed them to enter. Al-'Abbas said "O Chief of the believers! Judge between me and the oppressor ('Ali)." Then there was a dispute (regarding the property of Bani Nadir) between them ('Abbas and 'Ali). 'Uthman and his companions said, "O Chief of the Believers! Judge between them and relieve one from the other." Umar said, "Be patient! beseech you by Allah, with Whose permission the Heaven and the Earth Exist! Do you know that Allah's Apostle said, 'Our property is not to be inherited, and whatever we leave is to be given in charity,' and by this Allah's Apostle meant himself?" On that the group said, "He verily said so." 'Umar then faced 'Ali and 'Abbas and said, "I beseech you both by Allah, do you both know that Allah's Apostle said so?" They both replied, "Yes". 'Umar then said, "Now I am talking to you about this matter (in detail) . Allah favored Allah's Apostle with some of this wealth which He did not give to anybody else, as Allah said: 'What Allah bestowed as Fai (Booty on His Apostle for which you made no expedition… ' (59.6)
So that property was totally meant for Allah's Apostle, yet he did not collect it and ignore you, nor did he withhold it with your exclusion, but he gave it to you and distributed it among you till this much of it was left behind, and the Prophet, used to spend of this as the yearly expenditures of his family and then take what remained of it and spent it as he did with (other) Allah's wealth. The Prophet did so during all his lifetime, and I beseech you by Allah, do you know that?" They replied, "Yes." 'Umar then addressed 'Ali and 'Abbas, saying, "I beseech you both by Allah, do you know that?" Both of them replied, "Yes." 'Umar added, "Then Allah took His Apostle unto Him. Abu Bakr then said 'I am the successor of Allah's Apostle' and took over all the Prophet's property and disposed of it in the same way as Allah's Apostle used to do, and you were present then." Then he turned to 'Ali and 'Abbas and said, "You both claim that Abu Bakr did so-and-so in managing the property, but Allah knows that Abu Bakr was honest, righteous, intelligent, and a follower of what is right in managing it.
Then Allah took Abu Bakr unto Him, 'I said: I am the successor of Allah's Apostle and Abu Bakr.' So I took over the property for two years and managed it in the same way as Allah's Apostle, and Abu Bakr used to do. Then you both ('Ali and 'Abbas) came to me and asked for the same thing! (O 'Abbas! You came to me to ask me for your share from nephew's property; and this ('Ali) came to me asking for his wives share from her father's property, and I said to you both, 'If you wish, I will place it in your custody on condition that you both will manage it in the same way as Allah's Apostle and Abu Bakr did and as I have been doing since I took charge of managing it; otherwise, do not speak to me anymore about it.'
Then you both said, 'Give it to us on that (condition).' So I gave it to you on that condition. Now I beseech you by Allah, did I not give it to them on that condition?" The group (whom he had been addressing) replied, "Yes." 'Umar then addressed 'Abbas and 'Ali saying, "I beseech you both by Allah, didn't I give you all that property on that condition?" They said, "Yes." 'Umar then said, "Are you now seeking a verdict from me other than that? By Him with Whose Permission the Heaven and the Earth exists I will not give any verdict other than that till the Hour is established; and if you both are unable to manage this property, then you can hand it back to me, and I will be sufficient for it on your behalf." (See, Hadith No. 326, Vol. 4)

یہ حدیث شیئر کریں