صحیح بخاری ۔ جلد سوم ۔ فتنوں کا بیان ۔ حدیث 2015

اس فتنے کا بیان جو دریا کی طرح موجزن ہوگا۔ اور ابن عیینہ نے خلف بن حوشب سے نقل کیا ہے کہ لوگ فتنوں کےوقت ان اشعار کو مثال کے طور پر پڑھنا بہتر سمجھتے تھے امرؤالقیس نے کہا ہے کہ (۱) جنگ پہلے تو ایک کم سن لڑکی معلوم ہوتی ہے کہ ہر جاہل کے سامنے اپنی زینت کے ساتھ دوڑتی ہے ۔
(۲) یہاں تک کہ وہ مشتعل ہوجاتی ہے اور اس کے شعلے بھڑک اٹھتے ہیں تو وہ بغیر شوہر والی بڑھیا کی طرح پیٹھ پھیر لیتی ہے (۳) سفید و سیاہ بال ہوکر اس کا رنگ برا معلوم ہونے لگتا ہے اور متغیر ہوکر سونگھنے اور بوسہ بازی کے لئے مکروہ ہوجاتی ہے۔

راوی: سعید بن ابی مریم , محمد بن جعفر , شریک بن عبداللہ , سعید بن مسیب , ابوموسیٰ اشعری

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ شَرِيکِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي مُوسَی الْأَشْعَرِيِّ قَالَ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا إِلَی حَائِطٍ مِنْ حَوَائِطِ الْمَدِينَةِ لِحَاجَتِهِ وَخَرَجْتُ فِي إِثْرِهِ فَلَمَّا دَخَلَ الْحَائِطَ جَلَسْتُ عَلَی بَابِهِ وَقُلْتُ لَأَکُونَنَّ الْيَوْمَ بَوَّابَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَأْمُرْنِي فَذَهَبَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَضَی حَاجَتَهُ وَجَلَسَ عَلَی قُفِّ الْبِئْرِ فَکَشَفَ عَنْ سَاقَيْهِ وَدَلَّاهُمَا فِي الْبِئْرِ فَجَائَ أَبُو بَکْرٍ يَسْتَأْذِنُ عَلَيْهِ لِيَدْخُلَ فَقُلْتُ کَمَا أَنْتَ حَتَّی أَسْتَأْذِنَ لَکَ فَوَقَفَ فَجِئْتُ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَبُو بَکْرٍ يَسْتَأْذِنُ عَلَيْکَ قَالَ ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ فَدَخَلَ فَجَائَ عَنْ يَمِينِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَکَشَفَ عَنْ سَاقَيْهِ وَدَلَّاهُمَا فِي الْبِئْرِ فَجَائَ عُمَرُ فَقُلْتُ کَمَا أَنْتَ حَتَّی أَسْتَأْذِنَ لَکَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ فَجَائَ عَنْ يَسَارِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَکَشَفَ عَنْ سَاقَيْهِ فَدَلَّاهُمَا فِي الْبِئْرِ فَامْتَلَأَ الْقُفُّ فَلَمْ يَکُنْ فِيهِ مَجْلِسٌ ثُمَّ جَائَ عُثْمَانُ فَقُلْتُ کَمَا أَنْتَ حَتَّی أَسْتَأْذِنَ لَکَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ مَعَهَا بَلَائٌ يُصِيبُهُ فَدَخَلَ فَلَمْ يَجِدْ مَعَهُمْ مَجْلِسًا فَتَحَوَّلَ حَتَّی جَائَ مُقَابِلَهُمْ عَلَی شَفَةِ الْبِئْرِ فَکَشَفَ عَنْ سَاقَيْهِ ثُمَّ دَلَّاهُمَا فِي الْبِئْرِ فَجَعَلْتُ أَتَمَنَّی أَخًا لِي وَأَدْعُو اللَّهَ أَنْ يَأْتِيَ قَالَ ابْنُ الْمُسَيَّبِ فَتَأَوَّلْتُ ذَلِکَ قُبُورَهُمْ اجْتَمَعَتْ هَا هُنَا وَانْفَرَدَ عُثْمَانُ

سعید بن ابی مریم، محمد بن جعفر، شریک بن عبداللہ ، سعید بن مسیب، ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ کے کسی باغ کی طرف رفع حاجت کے لئے نکلے اور میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے نکلا جس باغ میں آپ داخل ہوئے تو میں دروازے پر بیٹھ گیا میں نے اپنی جی میں کہا کہ آج نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دربان ہوں گا، حالانکہ آپ نے حکم نہیں دیا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے گئے اور حاجت رفع سے فارغ ہوئے اور کنویں کی منڈیر پر بیٹھ گئے، اور اپنی دونوں پنڈلیاں کھول کر کنویں میں لٹکا دیں، حضرت ابوبکر آئے اور داخل ہونے کی اجازت مانگی، میں نے کہا کہ یہیں ٹھہر جاؤ یہاں تک کہ میں آپ کے لئے اجازت طلب کروں، میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا یا نبی اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابوبکر اندر آنے کی اجازت طلب کرتے ہیں آپ نے فرمایا کہ اندر آنے دو ان کو جنت کی خوشخبری سنادو، وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دائیں طرف آئے اور اپنی پنڈلیاں کھول کر کنویں میں لٹکا دیں، پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے میں نے کہا یہاں ٹھہریں میں آپ کے لئے اجازت طلب کرتا ہوں، میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں، آپ نے فرمایا کہ اندرآنے کی اجازت ہے اور ان کو جنت کی خوشخبری سنادو، وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دائیں طرف اپنی پنڈلیاں کھول کر کنویں میں لٹکا دیں، وہ منڈیر بھر گئی اور بیٹھنے کی جگہ نہ رہی، پھر حضرت عثمان آئے میں نے کہا کہ یہاں ٹھہریں میں آپ کیلئے اجازت لے لوں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ان کو اندر آنے دو اور جنت کی خوشخبری سنادو، اور ان کے ساتھ بلائیں ہوں گی جو ان کو پہنچیں گیں، وہ اندر آئے ان لوگوں کے پاس بیٹھنے کی جگہ نہ پائی تو وہاں سے پھر کر آپ کے سامنے کنویں کے کنارے پر بیٹھ گئے اور اپنی پنڈلیاں کھول کر کنویں میں لٹکا دیں، ابوموسیٰ کا بیان ہے کہ میں تمنا کرنے لگا کہ میرا بھائی بھی اس وقت آجاتا تاکہ اس کو بھی جنت کی خوشخبری مل جائے، ابن مسیب کہتے ہیں کہ میں نے اس کی یہ تاویل کی کہ ان کی قبریں ایک ساتھ ہیں اور حضرت عثمان کی قبر ان سے الگ ہے۔

Narrated Abu Musa Al-Ash'ari:
The Prophet went out to one of the gardens of Medina for some business and I went out to follow him. When he entered the garden, I sat at its gate and said to myself, "To day I will be the gatekeeper of the Prophet though he has not ordered me." The Prophet went and finished his need and went to sit on the constructed edge of the well and uncovered his legs and hung them in the well. In the meantime Abu Bakr came and asked permission to enter. I said (to him), "Wait till I get you permission." Abu Bakr waited outside and I went to the Prophet and said, "O Allah's Prophet! Abu Bakr asks your permission to enter." He said, "Admit him, and give him the glad tidings of entering Paradise." So Abu Bakr entered and sat on the right side of the Prophet and uncovered his legs and hung them in the well. Then 'Umar came and I said (to him), "Wait till I get you permission." The Prophet said, "Admit him and give him the glad tidings of entering Paradise." So Umar entered and sat on the left side of the Prophet and uncovered his legs and hung them in the well so that one side of the well became fully occupied and there remained no place for any-one to sit. Then 'Uthman came and I said (to him), "Wait till I get permission for you." The Prophet said, "Admit him and give him the glad tidings of entering Paradise with a calamity which will befall him." When he entered, he could not find any place to sit with them so he went to the other edge of the well opposite them and uncovered his legs and hung them in the well. I wished that a brother of mine would come, so I invoked Allah for his coming. (Ibn Al-Musaiyab said, "I interpreted that (narration) as indicating their graves. The first three are together and the grave of 'Uthman is separate from theirs.")

یہ حدیث شیئر کریں