صحیح بخاری ۔ جلد سوم ۔ خون بہا کا بیان ۔ حدیث 1831

قسامہ کا بیان۔ اور اشعث بن قیس نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرے دو گواہ ہونے چاہیے ، یا اس سے قسم لوں گا اور ابن ابی ملیکہ نے کہا کہ اس کا قصاص حضرت معاویہ نے نہیں لیا، اور عمر بن عبدالعزیز نے عدی بن ارطاة کو جنہیں بصرہ کا حاکم بناکر بھیجا تھا ایک مقتول کے متعلق جوگھی بیچنے والوں کے گھر کے پاس پایا گیاتھا ،لکھ کربھیجا کہ اگر اس کے وارث گواہ پائیں تو خیر ورنہ کسی پر ظلم نہ کرنا اس لئے کہ اس کا فیصلہ قیامت تک نہ ہوسکے گا۔

راوی: قتیبہ بن سعید , ابوبشر اسماعیل بن ابراہیم اسدی , حجاج بن ابوعثمان , ابورجاء جو آل ابی قلابہ

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْأَسَدِيُّ حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَبِي عُثْمَانَ حَدَّثَنِي أَبُو رَجَائٍ مِنْ آلِ أَبِي قِلَابَةَ حَدَّثَنِي أَبُو قِلَابَةَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ أَبْرَزَ سَرِيرَهُ يَوْمًا لِلنَّاسِ ثُمَّ أَذِنَ لَهُمْ فَدَخَلُوا فَقَالَ مَا تَقُولُونَ فِي الْقَسَامَةِ قَالَ نَقُولُ الْقَسَامَةُ الْقَوَدُ بِهَا حَقٌّ وَقَدْ أَقَادَتْ بِهَا الْخُلَفَائُ قَالَ لِي مَا تَقُولُ يَا أَبَا قِلَابَةَ وَنَصَبَنِي لِلنَّاسِ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عِنْدَکَ رُئُوسُ الْأَجْنَادِ وَأَشْرَافُ الْعَرَبِ أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ خَمْسِينَ مِنْهُمْ شَهِدُوا عَلَی رَجُلٍ مُحْصَنٍ بِدِمَشْقَ أَنَّهُ قَدْ زَنَی لَمْ يَرَوْهُ أَکُنْتَ تَرْجُمُهُ قَالَ لَا قُلْتُ أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ خَمْسِينَ مِنْهُمْ شَهِدُوا عَلَی رَجُلٍ بِحِمْصَ أَنَّهُ سَرَقَ أَکُنْتَ تَقْطَعُهُ وَلَمْ يَرَوْهُ قَالَ لَا قُلْتُ فَوَاللَّهِ مَا قَتَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدًا قَطُّ إِلَّا فِي إِحْدَی ثَلَاثِ خِصَالٍ رَجُلٌ قَتَلَ بِجَرِيرَةِ نَفْسِهِ فَقُتِلَ أَوْ رَجُلٌ زَنَی بَعْدَ إِحْصَانٍ أَوْ رَجُلٌ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَارْتَدَّ عَنْ الْإِسْلَامِ فَقَالَ الْقَوْمُ أَوَلَيْسَ قَدْ حَدَّثَ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَطَعَ فِي السَّرَقِ وَسَمَرَ الْأَعْيُنَ ثُمَّ نَبَذَهُمْ فِي الشَّمْسِ فَقُلْتُ أَنَا أُحَدِّثُکُمْ حَدِيثَ أَنَسٍ حَدَّثَنِي أَنَسٌ أَنَّ نَفَرًا مِنْ عُکْلٍ ثَمَانِيَةً قَدِمُوا عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَايَعُوهُ عَلَی الْإِسْلَامِ فَاسْتَوْخَمُوا الْأَرْضَ فَسَقِمَتْ أَجْسَامُهُمْ فَشَکَوْا ذَلِکَ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَفَلَا تَخْرُجُونَ مَعَ رَاعِينَا فِي إِبِلِهِ فَتُصِيبُونَ مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا قَالُوا بَلَی فَخَرَجُوا فَشَرِبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا فَصَحُّوا فَقَتَلُوا رَاعِيَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَطْرَدُوا النَّعَمَ فَبَلَغَ ذَلِکَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَرْسَلَ فِي آثَارِهِمْ فَأُدْرِکُوا فَجِيئَ بِهِمْ فَأَمَرَ بِهِمْ فَقُطِّعَتْ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ وَسَمَرَ أَعْيُنَهُمْ ثُمَّ نَبَذَهُمْ فِي الشَّمْسِ حَتَّی مَاتُوا قُلْتُ وَأَيُّ شَيْئٍ أَشَدُّ مِمَّا صَنَعَ هَؤُلَائِ ارْتَدُّوا عَنْ الْإِسْلَامِ وَقَتَلُوا وَسَرَقُوا فَقَالَ عَنْبَسَةُ بْنُ سَعِيدٍ وَاللَّهِ إِنْ سَمِعْتُ کَالْيَوْمِ قَطُّ فَقُلْتُ أَتَرُدُّ عَلَيَّ حَدِيثِي يَا عَنْبَسَةُ قَالَ لَا وَلَکِنْ جِئْتَ بِالْحَدِيثِ عَلَی وَجْهِهِ وَاللَّهِ لَا يَزَالُ هَذَا الْجُنْدُ بِخَيْرٍ مَا عَاشَ هَذَا الشَّيْخُ بَيْنَ أَظْهُرِهِمْ قُلْتُ وَقَدْ کَانَ فِي هَذَا سُنَّةٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهِ نَفَرٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَتَحَدَّثُوا عِنْدَهُ فَخَرَجَ رَجُلٌ مِنْهُمْ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ فَقُتِلَ فَخَرَجُوا بَعْدَهُ فَإِذَا هُمْ بِصَاحِبِهِمْ يَتَشَحَّطُ فِي الدَّمِ فَرَجَعُوا إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ صَاحِبُنَا کَانَ تَحَدَّثَ مَعَنَا فَخَرَجَ بَيْنَ أَيْدِينَا فَإِذَا نَحْنُ بِهِ يَتَشَحَّطُ فِي الدَّمِ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ بِمَنْ تَظُنُّونَ أَوْ مَنْ تَرَوْنَ قَتَلَهُ قَالُوا نَرَی أَنَّ الْيَهُودَ قَتَلَتْهُ فَأَرْسَلَ إِلَی الْيَهُودِ فَدَعَاهُمْ فَقَالَ آنْتُمْ قَتَلْتُمْ هَذَا قَالُوا لَا قَالَ أَتَرْضَوْنَ نَفَلَ خَمْسِينَ مِنْ الْيَهُودِ مَا قَتَلُوهُ فَقَالُوا مَا يُبَالُونَ أَنْ يَقْتُلُونَا أَجْمَعِينَ ثُمَّ يَنْتَفِلُونَ قَالَ أَفَتَسْتَحِقُّونَ الدِّيَةَ بِأَيْمَانِ خَمْسِينَ مِنْکُمْ قَالُوا مَا کُنَّا لِنَحْلِفَ فَوَدَاهُ مِنْ عِنْدِهِ قُلْتُ وَقَدْ کَانَتْ هُذَيْلٌ خَلَعُوا خَلِيعًا لَهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَطَرَقَ أَهْلَ بَيْتٍ مِنْ الْيَمَنِ بِالْبَطْحَائِ فَانْتَبَهَ لَهُ رَجُلٌ مِنْهُمْ فَحَذَفَهُ بِالسَّيْفِ فَقَتَلَهُ فَجَائَتْ هُذَيْلٌ فَأَخَذُوا الْيَمَانِيَّ فَرَفَعُوهُ إِلَی عُمَرَ بِالْمَوْسِمِ وَقَالُوا قَتَلَ صَاحِبَنَا فَقَالَ إِنَّهُمْ قَدْ خَلَعُوهُ فَقَالَ يُقْسِمُ خَمْسُونَ مِنْ هُذَيْلٍ مَا خَلَعُوهُ قَالَ فَأَقْسَمَ مِنْهُمْ تِسْعَةٌ وَأَرْبَعُونَ رَجُلًا وَقَدِمَ رَجُلٌ مِنْهُمْ مِنْ الشَّأْمِ فَسَأَلُوهُ أَنْ يُقْسِمَ فَافْتَدَی يَمِينَهُ مِنْهُمْ بِأَلْفِ دِرْهَمٍ فَأَدْخَلُوا مَکَانَهُ رَجُلًا آخَرَ فَدَفَعَهُ إِلَی أَخِي الْمَقْتُولِ فَقُرِنَتْ يَدُهُ بِيَدِهِ قَالُوا فَانْطَلَقَا وَالْخَمْسُونَ الَّذِينَ أَقْسَمُوا حَتَّی إِذَا کَانُوا بِنَخْلَةَ أَخَذَتْهُمْ السَّمَائُ فَدَخَلُوا فِي غَارٍ فِي الْجَبَلِ فَانْهَجَمَ الْغَارُ عَلَی الْخَمْسِينَ الَّذِينَ أَقْسَمُوا فَمَاتُوا جَمِيعًا وَأَفْلَتَ الْقَرِينَانِ وَاتَّبَعَهُمَا حَجَرٌ فَکَسَرَ رِجْلَ أَخِي الْمَقْتُولِ فَعَاشَ حَوْلًا ثُمَّ مَاتَ قُلْتُ وَقَدْ کَانَ عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ مَرْوَانَ أَقَادَ رَجُلًا بِالْقَسَامَةِ ثُمَّ نَدِمَ بَعْدَ مَا صَنَعَ فَأَمَرَ بِالْخَمْسِينَ الَّذِينَ أَقْسَمُوا فَمُحُوا مِنْ الدِّيوَانِ وَسَيَّرَهُمْ إِلَی الشَّأْمِ

قتیبہ بن سعید، ابوبشر اسماعیل بن ابراہیم اسدی، حجاج بن ابوعثمان، ابورجاء جو آل ابی قلابہ سے تھے، ابوقلابہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن تخت پر عمر بن عبدالعزیز بیٹھے ہوئے تھے اور لوگوں کو اذن عام دیا کہ اندر آئیں جب لوگ آئے تو کہا کہ تم قسامہ کے متعلق کیا کہتے ہو، لوگوں نے کہا کہ قسامہ کے متعلق ہمارا یہ خیال ہے کہ اس کے ذریعہ قصاص لینا حق ہے اور خلفاء نے بھی اس کے ذریعہ قصاص لیا ہے پھر مجھ سے کہا کہ اے ابوقلابہ تم کیا کہتے ہو؟ اور مجھے لوگوں کے سامنے کھڑا کیا، میں نے کہا کہ اے امیرالمومنین آپ کے پاس عرب کے شرفاء اور سردار موجود ہیں، اگر ان میں سے پچاس آدمی دمشق کے شادی شدہ آدمی کے متعلق گواہی دیں کہ اس نے زنا کیا ہے لیکن دیکھا نہیں تو کیا اسے سنگسار کر دیا جائے گا، انہوں نے عرض کیا کہ نہیں، میں نے کہا کہ اگر ان میں سے پچاس آدمی حمص کے ایک آدمی کے متعلق گواہی دیں کہ اس نے چوری کی تو کیا آپ اس کا ہاتھ کاٹ دیں گے جب کہ کسی نے دیکھا نہیں، انہوں نے کہا نہیں، میں نے کہا واللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےبجز تین حالتوں کے کسی اور حالت میں کسی کو قتل نہیں کیا، ایک وہ جو قصاص میں قتل کیا گیا، جس نے شادی شدہ ہو کر زنا کیا، یا وہ جس نے اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کی، اور اسلام سے پھر گیا، کچھ لوگوں نے کہا کیا انس بن مالک نے یہ بیان نہیں کیا کہ آپ نے چوری میں ہاتھ کاٹا ہے اور آنکھیں پھڑوا دی ہیں، پھر انہیں دھوپ میں ڈال دیا؟ میں نے کہا میں تم سے انس کی حدیث بیان کرتا ہوں مجھ سے انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ قبیلہ عکل کے کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آئے اور اسلام کی بیعت کی، زمین انہیں راس نہ آئی اور ان کے جسم مریض ہوگئے تو انہوں نے آپ سے شکایت کی، آپ نے فرمایا کہ تم لوگ ہمارے چرواہے کے پاس اونٹوں میں کیوں نہیں جاتے کہ ان کا دودھ اور پیشاب پیو، ان لوگوں نے کہا کہ ضرور، چنانچہ وہ لوگ گئے اور انہوں نے اونٹوں کا پیشاب اور ان کا دودھ پیا، اور تندرست ہوگئے اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چرواہے کو قتل کر کے اور جانور لے کر بھاگ گئے، یہ خبر آپ کو پہنچی تو ان کے پیچھے آپ نے آدمی بھیجے جو انہیں پکڑ کر لائے، آپ نے حکم دیا کہ ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے جائیں اور انہیں دھوپ میں ڈال دیا جائے، اور ان کی آنکھیں پھڑوا دی جائیں، یہاں تک کہ وہ مر گئے، میں نے کہا اس سے زیادہ سخت کوئی چیز نہیں جو انہوں نے کی تھی کہ دین اسلام سے پھر گئے، قتل کیا اور چوری کی، عنبہ نے کہا کہ واللہ میں نے آج کی طرح کبھی نہیں سنا، ابوقلابہ کا بیان ہے میں نے کہا اے عنبہ تو میری حدیث کو رد کرتا ہے، عنبہ نے کہا کہ نہیں بلکہ تم نے حدیث کو اس طرح بیان کیا ہے جو حقیقت میں ہے۔ واللہ جب تک یہ بوڑھا ان (شامیوں) میں زندہ ہے یہ لوگ بھلائی کے ساتھ ہوں گے، میں نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک سنت یہ ہے کہ آپ کے پاس انصار کے کچھ لوگ آئے آپ سے گفتگو کی، پھر ان میں ایک شخص باہر نکلا اور وہ قتل کردیا گیا، اس کے بعد یہ لوگ باہر نکلے تو دیکھا کہ ان کا ساتھی خون میں تڑپ رہا ہے، وہ لوگ لوٹ کر آپ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارا جو ساتھی ہمارے ساتھ گفتگو کر رہا تھا وہ یہاں سے اٹھ کر باہر نکلا، اب ہم نے اسے دیکھا کہ وہ خون میں تڑپ رہا ہے، یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے، اور فرمایا کہ کس کے متعلق تم گمان کرتے ہو، یا فرمایا کہ کس کے متعلق تمہارا خیال ہے، کہ اس نے قتل کیا ہے، آپ نے یہود کو بلا بھیجا اور فرمایا کہ تم نے اس آدمی کو قتل کیا، انہوں نے کہا نہیں، آپ نے فرمایا کہ کیا تم اس سے راضی ہو کہ یہود میں سے پچاس آدمی اس کی قسم کھائیں کہ ان لوگوں نے اس کو قتل نہیں کیا انہوں نے کہا کہ یہود اگر ہم سب کو قتل کردیں تو پھر بھی قسم کھا لیتے ہیں ان کو باک نہ ہوگا، آپ نے فرمایا کہ پھر تم لوگ پچاس قسمیں کھا کر دیت کے مستحق ہو جاؤ، ان لوگوں نے کہا کہ ہم تو قسم نہیں کھاتے، چنانچہ آپ نے ان کی طرف سے اپنا خون بہا ادا کر دیا، ابوقلابہ کہتے ہیں میں نے کہا ہذیل کے لوگوں نے ایک شخص کو زمانہ جاہلیت میں اپنے سے الگ کو دیا تھا، وہ مقام بطحاء میں کسی یمنی کے گھر اترا یمن والوں میں سے کسی کو خبر ہوئی تو اس پر تلوار سے حملہ کر کے اس کو قتل کر ڈالا، ہذیل کے لوگ آئے اور اس یمنی کو پکڑ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس حج کے زمانہ میں لے گئے اور ان لوگوں نے کہا اس نے ہمارے ساتھی کو قتل کیا ہے، اس یمنی نے کہا کہ ہذیلوں نے اس کو چھوڑ دیا، حضرت عمرنے کہا کہ ہذیلوں میں سے پچاس آدمی قسم کھائیں کہ انہوں نے اس کو نہیں چھوڑا، انچاس آدمیوں نے انہیں میں سے قسم کھائی، انہی لوگوں میں سے ایک شخص ملک شام سے آیا تھا ، جس سے ان لوگوں نے قسم کھانے کو کہا، اس نے ایک ہزار درہم دے کر قسم کھانے سے معافی لے لی تو ان لوگوں نے ایک دوسرے آدمی کو اس کی جگہ پر شامل کرلیا، اور مقتول کے بھائی کے پاس لے جا کر اس کا ہاتھ اس سے ملوا دیا، لوگوں نے کہا کہ وہ دونوں اور پچاس آدمی بھی چلے جنہوں نے قسم کھائی تھی، یہاں تک کہ وہ لوگ مقام نحلہ میں پہنچے تو ان لوگوں کو بارش نے آگھیرا، وہ لوگ پہاڑ کی ایک غار میں جا گھسے غار ان پچاس آدمیوں پردھنس گیا جنہوں نے قسم کھائی تھی، چنانچہ وہ لوگ مر گئے اور وہ دونوں ہاتھ ملانے والے باقی بچ گئے اور ان دونوں کو ایک پتھر آکر لگا جس سے مقتول کے بھائی کا پاؤں ٹوٹ گیا، وہ ایک سال زندہ رہا پھر مر گیا، ابوقلابہ کا بیان ہے کہ میں کہتا ہوں کہ عبدالملک بن مروان نے ایک شخص کو قسامہ کی بناء پر قصاص دلوایا، پھر اپنی اس حرکت پر پشیمان ہوا، چنانچہ پچاس قسم کھانے والوں کے متعلق حکم دیا گیا تو ان لوگوں کا نام دفتر سے کاٹ دیا گیا اور ان کو شہر بدر کر دیا گیا۔

Narrated Abu Qilaba:
Once 'Umar bin 'Abdul 'Aziz sat on his throne in the courtyard of his house so that the people might gather before him. Then he admitted them and (when they came in), he said, "What do you think of Al-Qasama?" They said, "We say that it is lawful to depend on Al-Qasama in Qisas, as the previous Muslim Caliphs carried out Qisas depending on it." Then he said to me, "O Abu Qilaba! What do you say about it?" He let me appear before the people and I said, "O Chief of the Believers! You have the chiefs of the army staff and the nobles of the Arabs. If fifty of them testified that a married man had committed illegal sexual intercourse in Damascus but they had not seen him (doing so), would you stone him?" He said, "No." I said, "If fifty of them testified that a man had committed theft in Hums, would you cut off his hand though they did not see him?" He replied, "No." I said, "By Allah, Allah's Apostle never killed anyone except in one of the following three situations: (1) A person who killed somebody unjustly, was killed (in Qisas,) (2) a married person who committed illegal sexual intercourse and (3) a man who fought against Allah and His Apostle and deserted Islam and became an apostate." Then the people said, "Didn't Anas bin Malik narrate that Allah's Apostle cut off the hands of the thieves, branded their eyes and then, threw them in the sun?" I said, "I shall tell you the narration of Anas. Anas said: "Eight persons from the tribe of 'Ukl came to Allah's Apostle and gave the Pledge of allegiance for Islam (became Muslim). The climate of the place (Medina) did not suit them, so they became sick and complained about that to Allah's Apostle. He said (to them ), "Won't you go out with the shepherd of our camels and drink of the camels' milk and urine (as medicine)?" They said, "Yes." So they went out and drank the camels' milk and urine, and after they became healthy, they killed the shepherd of Allah's Apostle and took away all the camels. This news reached Allah's Apostle , so he sent (men) to follow their traces and they were captured and brought (to the Prophet). He then ordered to cut their hands and feet, and their eyes were branded with heated pieces of iron, and then he threw them in the sun till they died." I said, "What can be worse than what those people did? They deserted Islam, committed murder and theft."
Then 'Anbasa bin Said said, "By Allah, I never heard a narration like this of today." I said, "O 'Anbasa! You deny my narration?" 'Anbasa said, "No, but you have related the narration in the way it should be related. By Allah, these people are in welfare as long as this Sheikh (Abu Qilaba) is among them." I added, "Indeed in this event there has been a tradition set by Allah's Apostle. The narrator added: Some Ansari people came to the Prophet and discussed some matters with him, a man from amongst them went out and was murdered. Those people went out after him, and behold, their companion was swimming in blood. They returned to Allah's Apostle and said to him, "O Allah's Apostle, we have found our companion who had talked with us and gone out before us, swimming in blood (killed)." Allah's Apostle went out and asked them, "Whom do you suspect or whom do you think has killed him?" They said, "We think that the Jews have killed him." The Prophet sent for the Jews and asked them, "Did you kill this (person)?" They replied, "No." He asked the Al-Ansars, "Do you agree that I let fifty Jews take an oath that they have not killed him?" They said, "It matters little for the Jews to kill us all and then take false oaths." He said, "Then would you like to receive the Diya after fifty of you have taken an oath (that the Jews have killed your man)?" They said, "We will not take the oath." Then the Prophet himself paid them the Diya (Blood-money)." The narrator added, "The tribe of Hudhail repudiated one of their men (for his evil conduct) in the Pre-lslamic period of Ignorance.
Then, at a place called Al-Batha' (near Mecca), the man attacked a Yemenite family at night to steal from them, but a. man from the family noticed him and struck him with his sword and killed him. The tribe of Hudhail came and captured the Yemenite and brought him to 'Umar during the Hajj season and said, "He has killed our companion." The Yemenite said, "But these people had repudiated him (i.e., their companion)." 'Umar said, "Let fifty persons of Hudhail swear that they had not repudiated him." So forty-nine of them took the oath and then a person belonging to them, came from Sham and they requested him to swear similarly, but he paid one-thousand Dirhams instead of taking the oath. They called another man instead of him and the new man shook hands with the brother of the deceased. Some people said, "We and those fifty men who had taken false oaths (Al-Qasama) set out, and when they reached a place called Nakhlah, it started raining so they entered a cave in the mountain, and the cave collapsed on those fifty men who took the false oath, and all of them died except the two persons who had shaken hands with each other. They escaped death but a stone fell on the leg of the brother of the deceased and broke it, whereupon he survived for one year and then died." I further said, "'Abdul Malik bin Marwan sentenced a man to death in Qisas (equality in punishment) for murder, basing his judgment on Al-Qasama, but later on he regretted that judgment and ordered that the names of the fifty persons who had taken the oath (Al-Qasama), be erased from the register, and he exiled them in Sham."

یہ حدیث شیئر کریں