حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیعت کرنے پر سب کے متفق ہونے کا بیان
راوی: موسیٰ ابوعوانہ حصین عمرو بن میمون
حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ هُوَ ابْنُ مَوْهَبٍ قَالَ جَائَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ مِصْرَ حَجَّ الْبَيْتَ فَرَأَی قَوْمًا جُلُوسًا فَقَالَ مَنْ هَؤُلَائِ الْقَوْمُ فَقَالُوا هَؤُلَائِ قُرَيْشٌ قَالَ فَمَنْ الشَّيْخُ فِيهِمْ قَالُوا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ قَالَ يَا ابْنَ عُمَرَ إِنِّي سَائِلُکَ عَنْ شَيْئٍ فَحَدِّثْنِي هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ عُثْمَانَ فَرَّ يَوْمَ أُحُدٍ قَالَ نَعَمْ قَالَ تَعْلَمُ أَنَّهُ تَغَيَّبَ عَنْ بَدْرٍ وَلَمْ يَشْهَدْ قَالَ نَعَمْ قَالَ تَعْلَمُ أَنَّهُ تَغَيَّبَ عَنْ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ فَلَمْ يَشْهَدْهَا قَالَ نَعَمْ قَالَ اللَّهُ أَکْبَرُ قَالَ ابْنُ عُمَرَ تَعَالَ أُبَيِّنْ لَکَ أَمَّا فِرَارُهُ يَوْمَ أُحُدٍ فَأَشْهَدُ أَنَّ اللَّهَ عَفَا عَنْهُ وَغَفَرَ لَهُ وَأَمَّا تَغَيُّبُهُ عَنْ بَدْرٍ فَإِنَّهُ کَانَتْ تَحْتَهُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَکَانَتْ مَرِيضَةً فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ لَکَ أَجْرَ رَجُلٍ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا وَسَهْمَهُ وَأَمَّا تَغَيُّبُهُ عَنْ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ فَلَوْ کَانَ أَحَدٌ أَعَزَّ بِبَطْنِ مَکَّةَ مِنْ عُثْمَانَ لَبَعَثَهُ مَکَانَهُ فَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُثْمَانَ وَکَانَتْ بَيْعَةُ الرِّضْوَانِ بَعْدَ مَا ذَهَبَ عُثْمَانُ إِلَی مَکَّةَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ الْيُمْنَی هَذِهِ يَدُ عُثْمَانَ فَضَرَبَ بِهَا عَلَی يَدِهِ فَقَالَ هَذِهِ لِعُثْمَانَ فَقَالَ لَهُ ابْنُ عُمَرَ اذْهَبْ بِهَا الْآنَ مَعَکَ
موسی ابوعوانہ حصین عمرو بن میمون سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب کو شہید ہونے سے چند دن پہلے مدینہ منورہ میں دیکھا وہ حذیفہ بن یمان اور عثمان بن حنیف کے پاس کھڑے ہوئے فرما رہے تھے کہ تم دونوں نے جو کیا اچھا نہیں کیا کیا تم کو اس بات کا خیال نہیں آیا؟ کہ تم نے ارض سواد پر اس کی طاقت سے زیادہ خراج مقرر کر دیا ہے ان دونوں نے عرض کیا نہیں، ہم نے اس پر اس قدر خراج مقرر کر دیا جس کی وہ طاقت رکھتے ہے اس میں زیادتی کی کوئی بات نہیں ہے، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: غور کرو شاید تم نے اس زمین پر اس قدر خراج مقرر کیا ہے جس کی وہ طاقت نہیں رکھتے اس پر انہوں نے عرض کیا کہ نہیں پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے سلامت رکھا تو میں اہل عراق کی بیوہ عورتوں کو اتنا خوش حال کر دونگا کہ میرے بعد وہ کسی کی محتاج نہ رہیں گی عمرو بن میمون بیان کرتے ہیں کہ چوتھے دن وہ شہید کر دیئے گئے نیز عمرو بن میمون بیان کرتے ہیں کہ جس دن آپ شہید ہوئے میں کھڑا ہوا تھا میرے اور ان کے درمیان بجز عبداللہ بن عباس کے اور کوئی دوسرا نہیں تھا اور آپ دو صفوں کے بیچ میں سے گزرتے تھے تو صف سیدھی کرنے کی تلقین کرتے جاتے تھے یہاں تک کہ جب صفوں میں کچھ خلل نہ دیکھتے تو آگے بڑھتے تھے اور اکثر سورت یوسف یا سورت نحل یا ایسی کوئی صورت پہلی رکعت میں پڑھا کرتے تھے، تاکہ سب لوگ جمع ہو جائیں جیسے ہی آپ نے تکبیر کہی (ایک شخص نے آپ کو زخمی کر دیا) میں نے آپ کو کہتے سنا مجھے کتے نے قتل کر ڈالا یا کاٹ کھایا، جب وه غلام دو دھاری چھری لئے ہوئے بھاگا تو دائیں بائیں جدهر بھی جاتا لوگوں کو اس سے مارتا، اس نے تیره آدمیوں کو زخمی کیا، ان میں سات تو مر گئے اس کو ایک مسلمان نے دیکھا اس نے اپنا لمبا کوٹ اس پر ڈال دیا پھر اس غلام کو خیال ہوا کہ وہ گرفتار کر لیا جائے، تو اس نے اسی خنجر سے خودکشی کر لی، حضرت عمر عبدالرحمن بن عوف کا ہاتھ پکڑ کر ان کو آگے کیا جو شخص اس وقت حضرت عمر کے قریب تھا وه ان باتوں کو دیکھ رہا تھا جو میں نے دیکھیں اور جو لوگ مسجد کے کنارے پر کھڑے تھے ان کو کچھ معلوم نہ ہوا انهوں نے صرف حضرت عمر کی آواز نہ سنی اور وه سبحان الله! سبحان الله! کہتے تھے، پھر ان لوگوں کو عبدالرحمن بن عوف نے جلد جلد نماز پڑھائی، جب لوگ نماز سے فارغ ہوئے تو حضرت عمر نے فرمایا: ابن عباس! دیکھو تو مجھ پر کون حمله آور ہوا ہے؟ وه تھوڑی دیر تک ادھر ادھر دیکھتے رهے، پھر انهوں نے کہا مغیره کے غلام نے آپ پر حمله کیا ہے، حضرت عمر نے دریافت کیا، کیا اس کاریگر نے؟ حضرت ابن عباس نے جواب دیا جی ہاں! تو حضرت عمر نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس کو غارت کرے میں نے تو اس کو ایک مناسب بات بتائی تھی، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے که اس نے میری موت کسی ایسے شخص کے ہاتھ پر نهیں کی جو اسلام کے پیرو ہونے کا دعوی کرتا ہو، بلاشبه تم اور تمهارے والد ماجد اس بات کو پسند کرتے تھے که مدینه منوره میں غلام بہت ہو جائیں، حضرت عباس کے پاس سب سے زیاده غلام تھے، ابن عباس نے کہا اگر تم چاہو تو میں ایسا کروں، اگر چاہو تو میں ان کو قتل کر دوں، حضرت عمر بولے تو جھوٹ بولتا ہے کیونکہ جب وه تمهاری زبان میں گفتگو کرنے لگے اور تمهارے قبله کی طرف نماز پڑھنے لگے اور تمهاری طرح حج کرنے لگے، تو پھر تم ان کو قتل نہیں کر سکتے، پھر حضرت عمر کو ان کے گھر لے جایا گیا لوگوں کے رنج و الم کا یہ حال تھا که گویا ان کو اس دن سے پہلے کوئی مصیبت ہی نه پہنچی تھی، کوئی کہتا فکر کی کچھ بات نہیں اچھے ہوجائیں گے، اور کوئی کہتا مجھے ان کی زندگی کی کوئی آس نہیں ہے پھر چھواروں کا بھیگا ہوا پانی لایا گیا، حضرت عمر نے اس کو نوش فرمایا: تو وه ان کے پیٹ سے نکل گیا، اس کے بعد دودھ لایا گیا انهوں نے نوش فرمایا تو وه بھی شکم مبارک سے نکل گیا، لوگوں نے سمجھ لیا که وه اب زنده نه رهیں گے، پھر ہم سب آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، وهاں اور لوگ بھی آ رهے تھے، اکثر لوگ آپ کی تعریف کرنے لگے پھر ایک جوان شخص آیا اس نے کها اے امیرالمومنین! آپ کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے خوشخبری ہو اس لئے که آپ کو رسول الله صلی الله علیه وسلم کی صحبت اور اسلام قبول کرنے میں تقدم حاصل ہوا جس کو آپ خود بھی جانتے ہیں، جب آپ خلیفه بنائے گئے تو آپ نے انصاف کیا اور آخرکار شهادت پائی، حضرت عمر نے فرمایا میں چاهتا ہوں که یہ سب باتیں مجھ پر برابر ہو جائیں نه عذاب ہو نه ثواب جب وه شخص لوٹا تو اس کا تہبند زمین پر لٹک رها تھا۔ حضرت عمر نے فرمایا اس لڑکے کو میرے پاس لاؤ چنانچه وه لایا گیا تو آپ نے فرمایا اے بھتیجے اپنا کپڑا اونچا کر که یہ بات کپڑے کو صاف رکھے گی اور اللہ کو بھی پسند ہے، پھر آپ نے اپنے بیٹے عبدالله سے کہا دیکھو مجھ پر لوگوں کا کتنا قرض ہے؟ لوگوں نے حساب لگایا، تو تقریبا چھیاسی ہزار قرضه تھا، فرمایا اگر اس قرض کی ادائیگی کے لئے عمر کی اولاد کا مال کافی ہو تو انهی کے مال سے اسے ادا کرنا، وگر نہ پھر بنی عدی بن کعب سے مانگنا اگر ان کا مال بھی ناکافی ہو تو قریش سے طلب کر لینا، اس کے سوا کسی اور سے قرض لے کر میرا قرض ادا نہ کرنا ام المومنین حضرت عائشہ کی خدمت میں جاؤ اور کہو کہ عمر آپ کو سلام کہتا ہے امیرالمومنین نہ کہنا کیونکہ اب میں امیر نہیں ہوں، اور کہنا کہ عمر بن خطاب آپ سے اس بات کی اجازت مانگتا ہے کہ وہ اپنے دوستوں یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر کے پہلو میں دفن کیا جائے چنانچہ عبداللہ بن عمر نے پہنچ کر سلام کے بعد اندر آنے کی اجازت چاہی (اجازت ملنے پر) اندر گئے تو ام المومنین کو روتے ہوئے دیکھا حضرت ابن عمر نے عرض کیا عمر بن خطاب سلام کہتے ہیں اور اس بات کی اجازت چاہتے ہیں کہ اپنے دوستوں کے پاس دفن کئے جائیں حضرت عائشہ نے فرمایا اس جگہ کو میں نے اپنے لئے اٹھا رکھا تھا مگر اب میں ان کو اپنی ذات پر ترجیح دیتی ہوں جب عبداللہ بن عمر واپس آئے تو حضرت عمر نے فرمایا کہ مجھے اٹھاؤ تو ایک شخص نے ان کو اپنے سہارے لگا کر بٹھا دیا حضرت عمر نے دریافت کیا کہ کیا جواب لائے ہو؟ انہوں نے کہا کہ امیرالمومنین وہی جو آپ چاہتے ہیں حضرت عائشہ نے اجازت دے دی ہے حضرت عمر نے فرمایا کہ اللہ کا شکر ہے میں کسی چیز کو اس سے زیادہ اہم خیال نہ کرتا تھا پس جب میں مر جاوں تو مجھے اٹھانا اور پھر حضرت عائشہ کو سلام کر کے کہنا کہ عمر بن خطاب اجازت چاہتا ہے اگر وہ اجازت دے دیں تو مجھے سونپ دینا اور اگر وہ واپس کر دیں تو مجھ کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا اور اس کے بعد ام المومنین حضرت حفصہ تشریف لائیں اور ان کے ساتھ اور عورتیں بھی آئیں جب ہم نے ان کو دیکھا تو ہم لوگ اٹھ گئے وہ تمام حضرت عمر کے پاس آئیں اور ان کے پاس تھوڑی دیر بیٹھ کر روئیں جب مردوں نے اندر آنے کی اجازت چاہی تو وہ عورتیں مکان میں چلی گئیں پھر ہم نے ان کے رونے کی آواز سنی لوگوں نے عرض کیا امیرالمومنین کچھ وصیت فرمائیں اور کسی کو خلیفہ بنا دیں حضرت عمر نے کہا کہ میرے نزدیک ان لوگوں سے زیادہ کوئی خلافت کا مستحق نہیں ہے جن سے رسول اللہ انتقال کے وقت راضی تھے پھر آپ نے حضرت علی، عثمان، زبیر، طلحہ، سعد، عبدالرحمن بن عوف کا نام لیا اور فرمایا کہ عبداللہ بن عمر تمہارے پاس حاضر رہا کریں گے مگر خلافت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے آپ نے یہ جملہ ابن عمر کی تسلی کے لئے کہا اور فرمایا کہ اگر خلافت سعد کو مل جائے تو وہ حقیقتا اس کے حقدار ہیں ورنہ جو شخص بھی خلیفہ بنے وہ ان سے امور خلافت میں مدد لے میں نے ان کو ناقابلیت اور خیانت کی بنا پر معزول نہیں کیا تھا آپ نے یہ بھی فرمایا کہ میرے بعد جو خیلفہ مقرر ہو اس کو وصیت کرتا ہوں کہ مہاجرین کا اولین حق سمجھے، ان کی عزت کی نگہداشت کرے اس کو انصار کے ساتھ بھلائی کی بھی وصیت کرتا ہوں جو دارالہجرت دارالایمان میں مہاجرین سے پہلے سے مقیم ہیں خلیفہ کو چاہیے کہ ان میں سے نیک لوگوں کی نیکوکاری کو بنظر استحسان دیکھے اور ان کے خطا کار لوگوں کی خطا سے درگزر کرے، نیز میں اس کو تمام شہروں کے مسلمانوں کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت کرتا ہوں اس لئے کہ وہ لوگ اسلام کی پشت وپناہ ہیں وہی مال غنیمت حاصل کرنے والے اور دشمن کو تباہ کرنے والے ہیں، اور وصیت کرتا ہوں کہ ان سے ان کی رضا مندی سے اس قدر مال لیا جائے جو ان کی ضروریات زندگی سے زائد ہو میں اس کو اعراب کے ساتھ نیکی کرنے کی وصیت کرتا ہوں اس لئے کہ وہی اصل عرب اور مادہ اسلام ہیں اور ان کی (ضروریات سے) زائد مال لے جائیں اور ان کے فقراء پر تقسیم کر دیں میں اس کو اللہ تعالیٰ اور رسول کے ذمہ کی وصیت کرتا ہوں کہ ان کے ساتھ ان کا عہد پورا کیا جائے اور ان کی حمایت میں پر زور جنگ کی جائے، اور ان سے ان کی طاقت سے زیادہ کام نہ لیا جائے، جب ان کی وفات ہوگئی تو ہم لوگ ان کو لئے جا رہے تھے کہ عبداللہ بن عمر نے جا کر حضرت عائشہ کو سلام کیا اور کہا کہ عمر بن خطاب اجازت مانگتے ہیں حضرت عائشہ نے کہا کہ ان کو داخل کر دو چنانچہ وہ لائے گئے اور وہاں اپنے دوستوں کے پہلو میں دفن کئے گئے ان کے دفن کئے جانے کے بعد وہ لوگ جو حضرت عمر کی نظر میں خلافت کے مستحق تھے جمع ہوئے، حضرت عبدالرحمن نے کہا کہ اس معاملہ کو صرف تین شخصوں پر چھوڑ دو جس پر زبیر بن عوام نے کہا کہ میں نے اپنا حق حضرت علی کے سپرد کیا حضرت طلحہ نے کہا کہ میں نے اپنا حق حضرت عثمان کو سونپ دیا اور حضرت سعد نے کہا کہ میں نے اپنا حق حضرت عبدالرحمن بن عوف کو دے دیا پھر حضرت عبدالرحمن بن عوف نے حضرت علی اور حضرت عثمان سے کہا تم دونوں میں سے جو شخص اس سے برأت کا اظہار کرے گا ہم خلافت اسی کے سپرد کریں گے اور اس پر اللہ اور اسلام کے حقوق کی نگہداشت لازم ہوگی ہر ایک کو غور کرنا چاہیے کہ اس کے خیال میں کون شخص افضل ہے اسی کو خلیفہ کر دے، اس پر شیخین یعنی عثمان و علی نے سکوت کیا جب یہ حضرات چپ رہے تو عبدالرحمن نے کہا کیا تم دونوں خلیفہ کے انتخاب کا مسئلہ میرے حوالے کرتے ہو واللہ مجھ پر لازم ہے کہ میں تم سے افضل کے ساتھ کوتاہی نہ کروں دونوں نے کہا یہ مسئلہ آپ کے حوالے کیا جاتا ہے عبدالرحمن نے دونوں میں سے ایک یعنی حضرت علی کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کہ تم کو رسول اللہ کی قرابت اور اسلام میں قدامت حاصل ہے، جو تم کو معلوم ہے اللہ کے واسطے تم پر لازم ہے اگر میں تمہیں خلیفہ بنا دوں تو تم عدل وانصاف کرنا اور اگر میں عثمان کو خلیفہ بنا دوں تو اس کی بات سننا اور اطاعت کرنا اس کے بعد حضرت عثمان کا ہاتھ پکڑا اور ان سے بھی ایسا ہی کہا چنانچہ عبدالرحمن نے عہد لیا پھر کہا، اے عثمان اپنا ہاتھ اٹھاؤ عبدالرحمن نے اور ان کے بعد علی نے ان سے بیعت کی پھر تم مدینہ والوں نے حاضر ہو کر حضرت عثمان سے بیعت کی۔
Narrated 'Amr bin Maimun:
I saw 'Umar bin Al-Khattab a few days before he was stabbed in Medina. He was standing with Hudhaifa bin Al-Yaman and 'Uthman bin Hunaif to whom he said, "What have you done? Do you think that you have imposed more taxation on the land (of As-Swad i.e. 'Iraq) than it can bear?" They replied, "We have imposed on it what it can bear because of its great yield." 'Umar again said, "Check whether you have imposed on the land what it can not bear." They said, "No, (we haven't)." 'Umar added, "If Allah should keep me alive I will let the widows of Iraq need no men to support them after me." But only four days had elapsed when he was stabbed (to death ). The day he was stabbed, I was standing and there was nobody between me and him (i.e. Umar) except Abdullah bin 'Abbas. Whenever Umar passed between the two rows, he would say, "Stand in straight lines."
When he saw no defect (in the rows), he would go forward and start the prayer with Takbir. He would recite Surat Yusuf or An-Nahl or the like in the first Rak'a so that the people may have the time to Join the prayer. As soon as he said Takbir, I heard him saying, "The dog has killed or eaten me," at the time he (i.e. the murderer) stabbed him. A non-Arab infidel proceeded on carrying a double-edged knife and stabbing all the persons he passed by on the right and left (till) he stabbed thirteen persons out of whom seven died. When one of the Muslims saw that, he threw a cloak on him. Realizing that he had been captured, the non-Arab infidel killed himself, 'Umar held the hand of 'Abdur-Rahman bin Auf and let him lead the prayer.
Those who were standing by the side of 'Umar saw what I saw, but the people who were in the other parts of the Mosque did not see anything, but they lost the voice of 'Umar and they were saying, "Subhan Allah! Subhan Allah! (i.e. Glorified be Allah)." Abdur-Rahman bin Auf led the people a short prayer. When they finished the prayer, 'Umar said, "O Ibn 'Abbas! Find out who attacked me." Ibn 'Abbas kept on looking here and there for a short time and came to say. "The slave of Al Mughira." On that 'Umar said, "The craftsman?" Ibn 'Abbas said, "Yes." 'Umar said, "May Allah curse him. I did not treat him unjustly. All the Praises are for Allah Who has not caused me to die at the hand of a man who claims himself to be a Muslim. No doubt, you and your father (Abbas) used to love to have more non-Arab infidels in Medina." Al-Abbas had the greatest number of slaves. Ibn 'Abbas said to 'Umar. "If you wish, we will do." He meant, "If you wish we will kill them." 'Umar said, "You are mistaken (for you can't kill them) after they have spoken your language, prayed towards your Qibla, and performed Hajj like yours."
Then Umar was carried to his house, and we went along with him, and the people were as if they had never suffered a calamity before. Some said, "Do not worry (he will be Alright soon)." Some said, "We are afraid (that he will die)." Then an infusion of dates was brought to him and he drank it but it came out (of the wound) of his belly. Then milk was brought to him and he drank it, and it also came out of his belly. The people realized that he would die. We went to him, and the people came, praising him. A young man came saying, "O chief of the believers! Receive the glad tidings from Allah to you due to your company with Allah's Apostle and your superiority in Islam which you know. Then you became the ruler (i.e. Caliph) and you ruled with justice and finally you have been martyred." 'Umar said, "I wish that all these privileges will counterbalance (my shortcomings) so that I will neither lose nor gain anything."
When the young man turned back to leave, his clothes seemed to be touching the ground. 'Umar said, "Call the young man back to me." (When he came back) 'Umar said, "O son of my brother! Lift your clothes, for this will keep your clothes clean and save you from the Punishment of your Lord." 'Umar further said, "O 'Abdullah bin 'Umar! See how much I am in debt to others." When the debt was checked, it amounted to approximately eighty-six thousand. 'Umar said, "If the property of 'Umar's family covers the debt, then pay the debt thereof; otherwise request it from Bani 'Adi bin Ka'b, and if that too is not sufficient, ask for it from Quraish tribe, and do not ask for it from any one else, and pay this debt on my behalf."
'Umar then said (to 'Abdullah), "Go to 'Aisha (the mother of the believers) and say: "Umar is paying his salutation to you. But don't say: 'The chief of the believers,' because today I am not the chief of the believers. And say: "Umar bin Al-Khattab asks the permission to be buried with his two companions (i.e. the Prophet, and Abu Bakr)." Abdullah greeted 'Aisha and asked for the permission for entering, and then entered to her and found her sitting and weeping. He said to her, "'Umar bin Al-Khattab is paying his salutations to you, and asks the permission to be buried with his two companions." She said, "I had the idea of having this place for myself, but today I prefer Umar to myself." When he returned it was said (to 'Umar), "'Abdullah bin 'Umar has come." 'Umar said, "Make me sit up." Somebody supported him against his body and 'Umar asked ('Abdullah), "What news do you have?" He said, "O chief of the believers! It is as you wish. She has given the permission." 'Umar said, "Praise be to Allah, there was nothing more important to me than this. So when I die, take me, and greet 'Aisha and say: "Umar bin Al-Khattab asks the permission (to be buried with the Prophet ), and if she gives the permission, bury me there, and if she refuses, then take me to the grave-yard of the Muslims."
Then Hafsa (the mother of the believers) came with many other women walking with her. When we saw her, we went away. She went in (to 'Umar) and wept there for sometime. When the men asked for permission to enter, she went into another place, and we heard her weeping inside. The people said (to 'Umar), "O chief of the believers! Appoint a successor." Umar said, "I do not find anyone more suitable for the job than the following persons or group whom Allah's Apostle had been pleased with before he died." Then 'Umar mentioned 'Ali, 'Uthman, AzZubair, Talha, Sad and 'Abdur-Rahman (bin Auf) and said, "Abdullah bin 'Umar will be a witness to you, but he will have no share in the rule. His being a witness will compensate him for not sharing the right of ruling. If Sad becomes the ruler, it will be alright: otherwise, whoever becomes the ruler should seek his help, as I have not dismissed him because of disability or dishonesty." 'Umar added, "I recommend that my successor takes care of the early emigrants; to know their rights and protect their honor and sacred things.
I also recommend that he be kind to the Ansar who had lived in Medina before the emigrants and Belief had entered their hearts before them. I recommend that the (ruler) should accept the good of the righteous among them and excuse their wrong-doers, and I recommend that he should do good to all the people of the towns (Al-Ansar), as they are the protectors of Islam and the source of wealth and the source of annoyance to the enemy. I also recommend that nothing be taken from them except from their surplus with their consent. I also recommend that he do good to the 'Arab bedouin, as they are the origin of the 'Arabs and the material of Islam. He should take from what is inferior, amongst their properties and distribute that to the poor amongst them. I also recommend him concerning Allah's and His Apostle's protectees (i.e. Dhimmis) to fulfill their contracts and to fight for them and not to overburden them with what is beyond their ability." So when 'Umar expired, we carried him out and set out walking. 'Abdullah bin 'Umar greeted ('Aisha) and said, "'Umar bin Al-Khattab asks for the permission." 'Aisha said, "Bring him in." He was brought in and buried beside his two companions.
When he was buried, the group (recommended by 'Umar) held a meeting. Then 'Abdur-Rahman said, " Reduce the candidates for rulership to three of you." Az-Zubair said, "I give up my right to Ali." Talha said, "I give up my right to 'Uthman," Sad, 'I give up my right to 'Abdur-Rahman bin 'Auf." 'Abdur-Rahman then said (to 'Uthman and 'Ali), "Now which of you is willing to give up his right of candidacy to that he may choose the better of the (remaining) two, bearing in mind that Allah and Islam will be his witnesses." So both the sheiks (i.e. 'Uthman and 'Ali) kept silent. 'Abdur-Rahman said, "Will you both leave this matter to me, and I take Allah as my Witness that I will not choose but the better of you?" They said, "Yes." So 'Abdur-Rahman took the hand of one of them (i.e. 'Ali) and said, "You are related to Allah's Apostle and one of the earliest Muslims as you know well. So I ask you by Allah to promise that if I select you as a ruler you will do justice, and if I select 'Uthman as a ruler you will listen to him and obey him." Then he took the other (i.e. 'Uthman) aside and said the same to him. When 'Abdur-Rahman secured (their agreement to) this covenant, he said, "O 'Uthman! Raise your hand." So he (i.e. 'Abdur-Rahman) gave him (i.e. 'Uthman) the solemn pledge, and then 'Ali gave him the pledge of allegiance and then all the (Medina) people gave him the pledge of allegiance.