صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ انبیاء علیہم السلام کا بیان ۔ حدیث 942

ابو عمرو قرشی حضرت عثمان بن عفان کے مناقب کا بیان، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی تھا کہ جس نے چاہ رومہ کھدوایا اس کے لئے جنت ہے اور اس کو حضرت عثمان نے کھدوایا تھا اور جس نے جیش عسرت کا سامان درست کر دیا وہ بھی جنت کا مستحق ہے اور اس کا حضرت عثمان نے تمام سامان تیار کیا تھا۔

راوی: موسیٰ ابوعوانہ عثمان بن موہب

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ هُوَ ابْنُ مَوْهَبٍ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ مِصْرَ حَجَّ الْبَيْتَ فَرَأَى قَوْمًا جُلُوسًا فَقَالَ مَنْ هَؤُلَاءِ الْقَوْمُ فَقَالُوا هَؤُلَاءِ قُرَيْشٌ قَالَ فَمَنْ الشَّيْخُ فِيهِمْ قَالُوا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ قَالَ يَا ابْنَ عُمَرَ إِنِّي سَائِلُكَ عَنْ شَيْءٍ فَحَدِّثْنِي هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ عُثْمَانَ فَرَّ يَوْمَ أُحُدٍ قَالَ نَعَمْ قَالَ تَعْلَمُ أَنَّهُ تَغَيَّبَ عَنْ بَدْرٍ وَلَمْ يَشْهَدْ قَالَ نَعَمْ قَالَ تَعْلَمُ أَنَّهُ تَغَيَّبَ عَنْ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ فَلَمْ يَشْهَدْهَا قَالَ نَعَمْ قَالَ اللَّهُ أَكْبَرُ قَالَ ابْنُ عُمَرَ تَعَالَ أُبَيِّنْ لَكَ أَمَّا فِرَارُهُ يَوْمَ أُحُدٍ فَأَشْهَدُ أَنَّ اللَّهَ عَفَا عَنْهُ وَغَفَرَ لَهُ وَأَمَّا تَغَيُّبُهُ عَنْ بَدْرٍ فَإِنَّهُ كَانَتْ تَحْتَهُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَتْ مَرِيضَةً فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ لَكَ أَجْرَ رَجُلٍ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا وَسَهْمَهُ وَأَمَّا تَغَيُّبُهُ عَنْ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ فَلَوْ كَانَ أَحَدٌ أَعَزَّ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْ عُثْمَانَ لَبَعَثَهُ مَكَانَهُ فَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُثْمَانَ وَكَانَتْ بَيْعَةُ الرِّضْوَانِ بَعْدَ مَا ذَهَبَ عُثْمَانُ إِلَى مَكَّةَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ الْيُمْنَى هَذِهِ يَدُ عُثْمَانَ فَضَرَبَ بِهَا عَلَى يَدِهِ فَقَالَ هَذِهِ لِعُثْمَانَ فَقَالَ لَهُ ابْنُ عُمَرَ اذْهَبْ بِهَا الْآنَ مَعَكَ

موسی ابوعوانہ عثمان بن موہب سے بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص مصر والوں میں سے آیا اور اس نے حج کیا بیت اللہ کا تو ایک جگہ چند لوگوں کو بیٹھے ہوئے دیکھ کر کہا یہ کون لوگ ہیں؟ کسی نے کہا یہ قریش ہیں اس نے پوچھا ان کا شیخ کون ہے؟ لوگوں نے کہا عبداللہ بن عمر اس شخص نے ابن عمر کی طرف متوجہ ہو کر کہا ابن عمر! میں تم سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں تم اس کا جواب دو کیا تم کو معلوم ہے کہ عثمان جنگ احد میں بھاگ گئے تھے ابن عمر نے کہا ہاں! ایسا ہی ہوا تھا پھر اس نے پوچھا تم کو معلوم ہے کہ عثمان بدر کے معرکہ سے غائب تھے اور جنگ میں شریک نہ تھے ابن عمر نے کہا ہاں! پھر اس نے کہا تم کو معلوم ہے کہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیعت رضوان میں بھی شریک نہ تھے اور غائب رہے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ہاں! اس پر اس شخص نے اللہ اکبر کہا تو ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے فرمایا کہ ادھر آئیں تجھ سے حقیقت حال بیان کروں احد کے دن عثمان کا بھاگ جانا تو اس کے متعلق یہ ہے کہ اللہ نے ان کے اس قصور کو معاف فرما دیا اور ان کو بخش دیا اور بدر کے دن عثمان کا غائب ہونا اس کا واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری صاحبزادی (حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) ان کی بیوی تھیں اور وہ (اس زمانہ میں) بیمار تھیں (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان کو ان کی خبر گیری کے لئے مدینہ میں چھوڑ دیا) اور فرمایا عثمان کو بدر میں حاضر ہونے والے شخص کا ثواب ملے گا اور مال غنیمت میں سے بھی پورا حصہ ملے گا رہا بیعت رضوان سے عثمان کا غائب رہنا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر مکہ میں عثمان سے زیادہ ہر دل عزیز باعزت کوئی شخص ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی کو مکہ روانہ فرماتے لیکن ایسا نہ تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں مکہ روانہ کیا اور ان کے جانے کے بعد بیعت رضوان کا واقعہ پیش آیا اور بیعت کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے داہنے ہاتھ کو اٹھا کر کہا یہ عثمان کا ہاتھ ہے پھر اس ہاتھ کو اپنے دوسرے ہاتھ پر مار کر فرمایا یہ عثمان کی بیعت ہے اس کے بعد ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تو میرے اس بیان کو لے جا جو میں نے تیرے سامنے دیا ہے یہی بیان تیرے سوالات کا مکمل جواب ہے۔

Narrated 'Uthman:
(the son of Muhib) An Egyptian who came and performed the Hajj to the Kaba saw some people sitting. He enquire, "Who are these people?" Somebody said, "They are the tribe of Quraish." He said, "Who is the old man sitting amongst them?" The people replied, "He is 'Abdullah bin 'Umar." He said, "O Ibn Umar! I want to ask you about something; please tell me about it. Do you know that 'Uthman fled away on the day (of the battle) of Uhud?" Ibn 'Umar said, "Yes." The (Egyptian) man said, "Do you know that 'Uthman was absent on the day (of the battle) of Badr and did not join it?" Ibn 'Umar said, "Yes." The man said, "Do you know that he failed to attend the Ar Ridwan pledge and did not witness it (i.e. Hudaibiya pledge of allegiance)?" Ibn 'Umar said, "Yes." The man said, "Allahu Akbar!" Ibn 'Umar said, "Let me explain to you (all these three things). As for his flight on the day of Uhud, I testify that Allah has excused him and forgiven him; and as for his absence from the battle of Badr, it was due to the fact that the daughter of Allah's Apostle was his wife and she was sick then. Allah's Apostle said to him, "You will receive the same reward and share (of the booty) as anyone of those who participated in the battle of Badr (if you stay with her).' As for his absence from the Ar-Ridwan pledge of allegiance, had there been any person in Mecca more respectable than 'Uthman (to be sent as a representative). Allah's Apostle would have sent him instead of him. No doubt, Allah's Apostle had sent him, and the incident of the Ar-Ridwan pledge of Allegiance happened after 'Uthman had gone to Mecca. Allah's Apostle held out his right hand saying, 'This is 'Uthman's hand.' He stroke his (other) hand with it saying, 'This (pledge of allegiance) is on the behalf of 'Uthman.' Then Ibn 'Umar said to the man, 'Bear (these) excuses in mind with you.'

یہ حدیث شیئر کریں