اسلام میں نبوت کی علامتوں کا بیان
راوی: موسیٰ معتمر ابوعثمان عبدالرحمن بن ابی بکر ما
حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ عَنْ أَبِيهِ حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَکْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ أَصْحَابَ الصُّفَّةِ کَانُوا أُنَاسًا فُقَرَائَ وَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَرَّةً مَنْ کَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ اثْنَيْنِ فَلْيَذْهَبْ بِثَالِثٍ وَمَنْ کَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ أَرْبَعَةٍ فَلْيَذْهَبْ بِخَامِسٍ أَوْ سَادِسٍ أَوْ کَمَا قَالَ وَأَنَّ أَبَا بَکْرٍ جَائَ بِثَلَاثَةٍ وَانْطَلَقَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَشَرَةٍ وَأَبُو بَکْرٍ ثَلَاثَةً قَالَ فَهُوَ أَنَا وَأَبِي وَأُمِّي وَلَا أَدْرِي هَلْ قَالَ امْرَأَتِي وَخَادِمِي بَيْنَ بَيْتِنَا وَبَيْنَ بَيْتِ أَبِي بَکْرٍ وَأَنَّ أَبَا بَکْرٍ تَعَشَّی عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ لَبِثَ حَتَّی صَلَّی الْعِشَائَ ثُمَّ رَجَعَ فَلَبِثَ حَتَّی تَعَشَّی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَائَ بَعْدَ مَا مَضَی مِنْ اللَّيْلِ مَا شَائَ اللَّهُ قَالَتْ لَهُ امْرَأَتُهُ مَا حَبَسَکَ عَنْ أَضْيَافِکَ أَوْ ضَيْفِکَ قَالَ أَوَعَشَّيْتِهِمْ قَالَتْ أَبَوْا حَتَّی تَجِيئَ قَدْ عَرَضُوا عَلَيْهِمْ فَغَلَبُوهُمْ فَذَهَبْتُ فَاخْتَبَأْتُ فَقَالَ يَا غُنْثَرُ فَجَدَّعَ وَسَبَّ وَقَالَ کُلُوا وَقَالَ لَا أَطْعَمُهُ أَبَدًا قَالَ وَايْمُ اللَّهِ مَا کُنَّا نَأْخُذُ مِنْ اللُّقْمَةِ إِلَّا رَبَا مِنْ أَسْفَلِهَا أَکْثَرُ مِنْهَا حَتَّی شَبِعُوا وَصَارَتْ أَکْثَرَ مِمَّا کَانَتْ قَبْلُ فَنَظَرَ أَبُو بَکْرٍ فَإِذَا شَيْئٌ أَوْ أَکْثَرُ قَالَ لِامْرَأَتِهِ يَا أُخْتَ بَنِي فِرَاسٍ قَالَتْ لَا وَقُرَّةِ عَيْنِي لَهِيَ الْآنَ أَکْثَرُ مِمَّا قَبْلُ بِثَلَاثِ مَرَّاتٍ فَأَکَلَ مِنْهَا أَبُو بَکْرٍ وَقَالَ إِنَّمَا کَانَ الشَّيْطَانُ يَعْنِي يَمِينَهُ ثُمَّ أَکَلَ مِنْهَا لُقْمَةً ثُمَّ حَمَلَهَا إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَصْبَحَتْ عِنْدَهُ وَکَانَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمٍ عَهْدٌ فَمَضَی الْأَجَلُ فَتَفَرَّقْنَا اثْنَا عَشَرَ رَجُلًا مَعَ کُلِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ أُنَاسٌ اللَّهُ أَعْلَمُ کَمْ مَعَ کُلِّ رَجُلٍ غَيْرَ أَنَّهُ بَعَثَ مَعَهُمْ قَالَ أَکَلُوا مِنْهَا أَجْمَعُونَ أَوْ کَمَا قَالَ
موسی معتمر ابوعثمان حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ اصحاب صفہ مفلس اور فقیر لوگ تھے ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (صحابہ سے) فرمایا جس شخص کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو تو وہ ایک تیسرا آدمی (ان میں سے) لے جائے۔ اور جس کے پاس چار آدمیوں کا کھانا ہو تو وہ پانچویں اور اس سے زیادہ ہو تو چھٹے کو لے جائے۔چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تین آدمیوں کو لائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس آدمیوں کو لے گئے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں تین آدمی تھے میرے والد اور میری والدہ اور ایک خادم جو ہمارا اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مشترک تھا (اس رات کو) ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شب کا کھانا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کھایا پھر وہیں تو قف کیا اور عشاء کی نماز بھی وہیں پڑھی۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے پاس ٹھہرے رہے اس کے بعد بہت رات گئے گھر لوٹے تو ان سے ان کی بیوی نے کہا۔ آپ کو اپنے مہمانوں کا خیال نہ آیا۔ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کیا تم نے انہیں کھانا نہیں کھلایا ہے؟ ان کی بیوی نے کہا انہوں نے اس وقت تک کھانا کھانے سے انکار کیا جب تک تم نہ آ جاؤ۔ لوگوں نے ان کے سامنے کھانا پیش کیا مگر انہوں نے نہ مانا (عبدالرحمن کہتے ہیں) میں تو مارے خوف کے چھپ رہا ابوبکر نے کہا ارے غنثر (یہ ایک سخت کلمہ ہے جو ڈانٹ ڈپٹ کے وقت بولا جاتا ہے) پھر انہوں نے مجھے بہت سخت کہا اور کہا تم لوگ کھاؤ میں اس کھانے کو ہرگز نہ کھاؤں گا عبدالرحمن کہتے ہیں اللہ کی قسم ہم جو لقمہ اس کے نیچے سے اٹھاتے اس سے زیادہ بڑھ جاتا ہے (یعنی جس جگہ سے کھانا اٹھاتے تھے وہ خالی ہونے کی بجائے کھانے سے بھر جاتی اور کھانے میں زیادتی ہو جاتی تھی یہاں تک کہ سب لوگ شکم سیر ہو گئے اور وہ کھانا اس سے بھی تین گنا زیادہ ہو گیا۔ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بیوی سے کہا اے بنی فراس کی بہن! یہ کھانا تو پہلے سے بھی زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا اپنی ٹھنڈی آنکھ کی قسم ہے۔ بے شک وہ کھانا تو پہلے سے تین گنا زیادہ ہے۔ پھر ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس میں سے کھایا اور کہا وہ قسم شیطان کی وجہ سے تھی اس کے بعد اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے صبح تک وہ کھانا حضرت کے ہاں رہا ہمارے اور کچھ لوگوں کے درمیان معاہدہ تھا جب مدت معاہدہ گزر گئی تو ہم نے بارہ آدمی حکم اور جج بنائے ان میں ہر شخص کے ساتھ کچھ لوگ تھے اللہ معلوم ہر شخص کے ہمراہ کتنے آدمی تھے۔ بہر حال پانچوں کے ساتھ ان لوگوں کو بھیجا گیا عبدالرحمن کہتے ہیں کہ اسی کھانے میں سے سب لوگوں نے کھایا۔
Narrated Abdur-Rahman bin Abi Bakr:
The companions of Suffa were poor people. The Prophet once said, "Whoever has food enough for two persons, should take a third one (from among them), and whoever has food enough for four persons, should take a fifth or a sixth (or said something similar)." Abu Bakr brought three persons while the Prophet took ten. And Abu Bakr with his three family member (who were I, my father and my mother) (the sub-narrator is in doubt whether 'Abdur-Rahman said, "My wife and my servant who was common for both my house and Abu Bakr's house.") Abu Bakr took his supper with the Prophet and stayed there till he offered the 'Isha' prayers. He returned and stayed till Allah's Apostle took his supper. After a part of the night had passed, he returned to his house. His wife said to him, "What has detained you from your guests?" He said, "Have you served supper to them?" She said, "They refused to take supper) until you come. They (i.e. some members of the household) presented the meal to them but they refused (to eat)" I went to hide myself and he said, "O Ghunthar!" He invoked Allah to cause my ears to be cut and he rebuked me. He then said (to them): Please eat!" and added, I will never eat the meal." By Allah, whenever we took a handful of the meal, the meal grew from underneath more than that handful till everybody ate to his satisfaction; yet the remaining food was more than the original meal. Abu Bakr saw that the food was as much or more than the original amount. He called his wife, "O sister of Bani Firas!" She said, "O pleasure of my eyes. The food has been tripled in quantity." Abu Bakr then started eating thereof and said, "It (i.e. my oath not to eat) was because of Sa all." He took a handful from it, and carried the rest to the Prophet. SO that food was with the Prophet . There was a treaty between us and some people, and when the period of that treaty had elapsed, he divided US into twelve groups, each being headed by a man. Allah knows how many men were under the command of each leader. Anyhow, the Prophet surely sent a leader with each group. Then all of them ate of that meal.