صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ انبیاء علیہم السلام کا بیان ۔ حدیث 673

باب (نیو انٹری)

راوی:

بَاب إِنَّ قَارُونَ كَانَ مِنْ قَوْمِ مُوسَى الْآيَةَ لَتَنُوءُ لَتُثْقِلُ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ أُولِي الْقُوَّةِ لَا يَرْفَعُهَا الْعُصْبَةُ مِنْ الرِّجَالِ يُقَالُ الْفَرِحِينَ الْمَرِحِينَ وَيْكَأَنَّ اللَّهَ مِثْلُ أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ وَيُوَسِّعُ عَلَيْهِ وَيُضَيِّقُ
بَاب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا إِلَى أَهْلِ مَدْيَنَ لِأَنَّ مَدْيَنَ بَلَدٌ وَمِثْلُهُ وَاسْأَلْ الْقَرْيَةَ وَاسْأَلْ الْعِيرَ يَعْنِي أَهْلَ الْقَرْيَةِ وَأَهْلَ الْعِيرِ وَرَاءَكُمْ ظِهْرِيًّا لَمْ يَلْتَفِتُوا إِلَيْهِ يُقَالُ إِذَا لَمْ يَقْضِ حَاجَتَهُ ظَهَرْتَ حَاجَتِي وَجَعَلْتَنِي ظِهْرِيًّا قَالَ الظِّهْرِيُّ أَنْ تَأْخُذَ مَعَكَ دَابَّةً أَوْ وِعَاءً تَسْتَظْهِرُ بِهِ مَكَانَتُهُمْ وَمَكَانُهُمْ وَاحِدٌ يَغْنَوْا يَعِيشُوا تَأْسَ تَحْزَنْ آسَى أَحْزَنُ وَقَالَ الْحَسَنُ إِنَّكَ لَأَنْتَ الْحَلِيمُ يَسْتَهْزِئُونَ بِهِ وَقَالَ مُجَاهِدٌ لَيْكَةُ الْأَيْكَةُ يَوْمِ الظُّلَّةِ إِظْلَالُ الْغَمَامِ الْعَذَابَ عَلَيْهِمْ

آیت کریمہ”بیشک قارون موسیٰ کی قوم سے تھا‘ الایتہ کا بیان ”لتنوئ“ یعنی وہ بھاری ہوتی تھیں‘ ابن عباس نے فرمایا ”اولی القوة“ یعنی جنہیں مردوں کی طاقتور جماعت بھی نہ اٹھا سکے کہا جاتا ہے”فرحین“ یعنی اترانے والے‘ ویکان اللہ‘ مثل الم تر ان اللہ کے ہے یعنی کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ جس پر چاہتا ہے روزی وسیع کر دتیا ہے اور جس پر چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے، ”والی مدین اخاھم شعیباً“ یعنی اہل مدین کی جانب ہم نے شعیب کو بھیجا‘ مدین سے مراد اہل مدین ہیں کیونکہ مدین تو شہر کا نام ہے اور اسی طرح واسئل القریة اور واسئل العیر ہے۔ یعنی بستی والوں اور قافلہ والوں سے پوچھ لیجئے وراءکم ظھریا یعنی ان کی طرف انہوں نے توجہ نہ کی‘ جب تم کسی کی حاجت روائی نہ کرو ‘ تو اس موقع پر ظھرت حاجتی و جعلتنی ظھریا کہا جاتا ہے‘ اور ظہری یہ ہے کہ تم اپنے ساتھ سواری یا برتن لو‘ جس سے مدد چاہو‘ مکانتھم و مکانھم کے ایک معنی ہیں‘ یغنوا یعنی زندہ رہے‘ یایئس بمعنی رنجیدہ ہوا‘ انسی یعنی میں رنجیدہ ہوں‘ حسن نے فرمایا کہ بےشک تم بردبار اور ہدایت یافتہ ہو“۔ مذاق اور استھزاءکے طور پر کہتے تھے‘ مجاہد نے کہا لیکہ اصل میں الایکہ تھا‘ یوم الظلہ اس لئے کہتے ہیں کہ اس دن عذاب کے بادلوں نے ان پر سایہ کر لیا تھا۔

یہ حدیث شیئر کریں