صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ انبیاء علیہم السلام کا بیان ۔ حدیث 649

آیت کریمہ بیشک یوسف اور ان کے بھائیوں (کے قصہ) میں پوچھنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں کا بیان

راوی: یحیی بن بکیر لیث عقیل ابن شہاب عروہ

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ بُکَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَأَيْتِ قَوْلَهُ حَتَّی إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ کُذِّبُوا أَوْ کُذِبُوا قَالَتْ بَلْ کَذَّبَهُمْ قَوْمُهُمْ فَقُلْتُ وَاللَّهِ لَقَدْ اسْتَيْقَنُوا أَنَّ قَوْمَهُمْ کَذَّبُوهُمْ وَمَا هُوَ بِالظَّنِّ فَقَالَتْ يَا عُرَيَّةُ لَقَدْ اسْتَيْقَنُوا بِذَلِکَ قُلْتُ فَلَعَلَّهَا أَوْ کُذِبُوا قَالَتْ مَعَاذَ اللَّهِ لَمْ تَکُنِ الرُّسُلُ تَظُنُّ ذَلِکَ بِرَبِّهَا وَأَمَّا هَذِهِ الْآيَةُ قَالَتْ هُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ الَّذِينَ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَصَدَّقُوهُمْ وَطَالَ عَلَيْهِمْ الْبَلَائُ وَاسْتَأْخَرَ عَنْهُمْ النَّصْرُ حَتَّی إِذَا اسْتَيْأَسَتْ مِمَّنْ کَذَّبَهُمْ مِنْ قَوْمِهِمْ وَظَنُّوا أَنَّ أَتْبَاعَهُمْ کَذَّبُوهُمْ جَائَهُمْ نَصْرُ اللَّهِ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ اسْتَيْأَسُوا اسْتَفْعَلُوا مِنْ يَئِسْتُ مِنْهُ مِنْ يُوسُفَ لَا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ مَعْنَاهُ من الرَّجَائُ

یحیی بن بکیر لیث عقیل ابن شہاب عروہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے زوجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے دریافت کیا کہ بتائیے (فرمان الہی) "جب رسول مایوس ہو گئے اور انہیں یہ گمان ہوا کہ ان کی قوم انہیں جھٹلا دے گی" میں کذبوا کے ذال پر تشدید ہے یا نہیں؟ یعنی کذبوا ہے یا نہیں تو انہوں نے فرمایا (کذبوا ہے) کیونکہ ان کی قوم تکذیب کرتی تھی میں نے عرض کیا واللہ رسولوں کو تو اپنی قوم کی تکذیب کا یقین تھا (پھر ظنوا کیونکر صادق آئیگا) تو عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا اے عریہ (تصغیر عروہ) بیشک انہیں اس بات کا یقین تھا میں نے عرض کیا تو شاید یہ کذبوا ہے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا معاذ اللہ انبیاء اللہ کے ساتھ ایسا گمان نہیں کر سکتے (کیونکہ اس طرح معنی یہ ہوں گے کہ انہیں یہ گمان ہوا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا یعنی معاذ اللہ اللہ نے فتح کا وعدہ پورا نہیں کیا لیکن مندرجہ بالا آیت میں ان رسولوں کے وہ متبعین مراد ہیں جو اپنے پروردگار پر ایمان لے آئے تھے اور پیغمبروں کی تصدیق کی تھی پھر ان کی آزمائش ذرا طویل ہوگئی اور مدد آنے میں تاخیر ہوئی حتیٰ کہ جب پیغمبر اپنی قوم سے جھٹلانے والوں کے ایمان سے مایوس ہو گئے اور انہیں یہ گمان ہونے لگا کہ ان کے متبعین بھی ان کی تکذیب کر دیں گے تو اللہ کی مدد آ گئی امام بخاری فرماتے ہیں کہ استیاسوا یئست باب افتعال سے ہے یعنی یوسف مایوس ہو گئے ( وَلَا تَايْ َ سُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ کے معنی ہیں کہ اللہ کی رحمت کے امیدوار ہو

Narrated 'Urwa:
I asked 'Aisha the wife of the Prophet about the meaning of the following Verse: — "(Respite will be granted) 'Until when the apostles give up hope (of their people) and thought that they were denied (by their people)……………"(12.110) 'Aisha replied, "Really, their nations did not believe them." I said, "By Allah! They were definite that their nations treated them as liars and it was not a matter of suspecting." 'Aisha said, "O 'Uraiya (i.e. 'Urwa)! No doubt, they were quite sure about it."
I said, "May the Verse be read in such a way as to mean that the apostles thought that Allah did not help them?" Aisha said, "Allah forbid! (Impossible) The Apostles did not suspect their Lord of such a thing. But this Verse is concerned with the Apostles' followers who had faith in their Lord and believed in their apostles and their period of trials was long and Allah's Help was delayed till the apostles gave up hope for the conversion of the disbelievers amongst their nation and suspected that even their followers were shaken in their belief, Allah's Help then came to them." Narrated Ibn 'Umar: The Prophet said, "The honorable, the son of the honorable, the son of the honorable, (was) Joseph, the son of Jacob! the son of Isaac, the son of Abraham."

یہ حدیث شیئر کریں