یزفون یعنی تیز چلنے کا بیان
راوی: عبداللہ بن محمد عبدالرزاق معمر ایوب سختیانی کثیر بن کثیر بن مطلب بن ابووداعہ , سعید بن جبیر , ابن عباس
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ وَکَثِيرِ بْنِ کَثِيرِ بْنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِي وَدَاعَةَ يَزِيدُ أَحَدُهُمَا عَلَی الْآخَرِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَوَّلَ مَا اتَّخَذَ النِّسَائُ الْمِنْطَقَ مِنْ قِبَلِ أُمِّ إِسْمَاعِيلَ اتَّخَذَتْ مِنْطَقًا لَتُعَفِّيَ أَثَرَهَا عَلَی سَارَةَ ثُمَّ جَائَ بِهَا إِبْرَاهِيمُ وَبِابْنِهَا إِسْمَاعِيلَ وَهِيَ تُرْضِعُهُ حَتَّی وَضَعَهُمَا عِنْدَ الْبَيْتِ عِنْدَ دَوْحَةٍ فَوْقَ زَمْزَمَ فِي أَعْلَی الْمَسْجِدِ وَلَيْسَ بِمَکَّةَ يَوْمَئِذٍ أَحَدٌ وَلَيْسَ بِهَا مَائٌ فَوَضَعَهُمَا هُنَالِکَ وَوَضَعَ عِنْدَهُمَا جِرَابًا فِيهِ تَمْرٌ وَسِقَائً فِيهِ مَائٌ ثُمَّ قَفَّی إِبْرَاهِيمُ مُنْطَلِقًا فَتَبِعَتْهُ أُمُّ إِسْمَاعِيلَ فَقَالَتْ يَا إِبْرَاهِيمُ أَيْنَ تَذْهَبُ وَتَتْرُکُنَا بِهَذَا الْوَادِي الَّذِي لَيْسَ فِيهِ إِنْسٌ وَلَا شَيْئٌ فَقَالَتْ لَهُ ذَلِکَ مِرَارًا وَجَعَلَ لَا يَلْتَفِتُ إِلَيْهَا فَقَالَتْ لَهُ أَاللَّهُ الَّذِي أَمَرَکَ بِهَذَا قَالَ نَعَمْ قَالَتْ إِذَنْ لَا يُضَيِّعُنَا ثُمَّ رَجَعَتْ فَانْطَلَقَ إِبْرَاهِيمُ حَتَّی إِذَا کَانَ عِنْدَ الثَّنِيَّةِ حَيْثُ لَا يَرَوْنَهُ اسْتَقْبَلَ بِوَجْهِهِ الْبَيْتَ ثُمَّ دَعَا بِهَؤُلَائِ الْکَلِمَاتِ وَرَفَعَ يَدَيْهِ فَقَالَ رَبِّ إِنِّي أَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِکَ الْمُحَرَّمِ حَتَّی بَلَغَ يَشْکُرُونَ وَجَعَلَتْ أُمُّ إِسْمَاعِيلَ تُرْضِعُ إِسْمَاعِيلَ وَتَشْرَبُ مِنْ ذَلِکَ الْمَائِ حَتَّی إِذَا نَفِدَ مَا فِي السِّقَائِ عَطِشَتْ وَعَطِشَ ابْنُهَا وَجَعَلَتْ تَنْظُرُ إِلَيْهِ يَتَلَوَّی أَوْ قَالَ يَتَلَبَّطُ فَانْطَلَقَتْ کَرَاهِيَةَ أَنْ تَنْظُرَ إِلَيْهِ فَوَجَدَتْ الصَّفَا أَقْرَبَ جَبَلٍ فِي الْأَرْضِ يَلِيهَا فَقَامَتْ عَلَيْهِ ثُمَّ اسْتَقْبَلَتْ الْوَادِيَ تَنْظُرُ هَلْ تَرَی أَحَدًا فَلَمْ تَرَ أَحَدًا فَهَبَطَتْ مِنْ الصَّفَا حَتَّی إِذَا بَلَغَتْ الْوَادِيَ رَفَعَتْ طَرَفَ دِرْعِهَا ثُمَّ سَعَتْ سَعْيَ الْإِنْسَانِ الْمَجْهُودِ حَتَّی جَاوَزَتْ الْوَادِيَ ثُمَّ أَتَتْ الْمَرْوَةَ فَقَامَتْ عَلَيْهَا وَنَظَرَتْ هَلْ تَرَی أَحَدًا فَلَمْ تَرَ أَحَدًا فَفَعَلَتْ ذَلِکَ سَبْعَ مَرَّاتٍ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَلِکَ سَعْيُ النَّاسِ بَيْنَهُمَا فَلَمَّا أَشْرَفَتْ عَلَی الْمَرْوَةِ سَمِعَتْ صَوْتًا فَقَالَتْ صَهٍ تُرِيدُ نَفْسَهَا ثُمَّ تَسَمَّعَتْ فَسَمِعَتْ أَيْضًا فَقَالَتْ قَدْ أَسْمَعْتَ إِنْ کَانَ عِنْدَکَ غِوَاثٌ فَإِذَا هِيَ بِالْمَلَکِ عِنْدَ مَوْضِعِ زَمْزَمَ فَبَحَثَ بِعَقِبِهِ أَوْ قَالَ بِجَنَاحِهِ حَتَّی ظَهَرَ الْمَائُ فَجَعَلَتْ تُحَوِّضُهُ وَتَقُولُ بِيَدِهَا هَکَذَا وَجَعَلَتْ تَغْرِفُ مِنْ الْمَائِ فِي سِقَائِهَا وَهُوَ يَفُورُ بَعْدَ مَا تَغْرِفُ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْحَمُ اللَّهُ أُمَّ إِسْمَاعِيلَ لَوْ تَرَکَتْ زَمْزَمَ أَوْ قَالَ لَوْ لَمْ تَغْرِفْ مِنْ الْمَائِ لَکَانَتْ زَمْزَمُ عَيْنًا مَعِينًا قَالَ فَشَرِبَتْ وَأَرْضَعَتْ وَلَدَهَا فَقَالَ لَهَا الْمَلَکُ لَا تَخَافُوا الضَّيْعَةَ فَإِنَّ هَا هُنَا بَيْتَ اللَّهِ يَبْنِي هَذَا الْغُلَامُ وَأَبُوهُ وَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَهْلَهُ وَکَانَ الْبَيْتُ مُرْتَفِعًا مِنْ الْأَرْضِ کَالرَّابِيَةِ تَأْتِيهِ السُّيُولُ فَتَأْخُذُ عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ فَکَانَتْ کَذَلِکَ حَتَّی مَرَّتْ بِهِمْ رُفْقَةٌ مِنْ جُرْهُمَ أَوْ أَهْلُ بَيْتٍ مِنْ جُرْهُمَ مُقْبِلِينَ مِنْ طَرِيقِ کَدَائٍ فَنَزَلُوا فِي أَسْفَلِ مَکَّةَ فَرَأَوْا طَائِرًا عَائِفًا فَقَالُوا إِنَّ هَذَا الطَّائِرَ لَيَدُورُ عَلَی مَائٍ لَعَهْدُنَا بِهَذَا الْوَادِي وَمَا فِيهِ مَائٌ فَأَرْسَلُوا جَرِيًّا أَوْ جَرِيَّيْنِ فَإِذَا هُمْ بِالْمَائِ فَرَجَعُوا فَأَخْبَرُوهُمْ بِالْمَائِ فَأَقْبَلُوا قَالَ وَأُمُّ إِسْمَاعِيلَ عِنْدَ الْمَائِ فَقَالُوا أَتَأْذَنِينَ لَنَا أَنْ نَنْزِلَ عِنْدَکِ فَقَالَتْ نَعَمْ وَلَکِنْ لَا حَقَّ لَکُمْ فِي الْمَائِ قَالُوا نَعَمْ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَلْفَی ذَلِکَ أُمَّ إِسْمَاعِيلَ وَهِيَ تُحِبُّ الْإِنْسَ فَنَزَلُوا وَأَرْسَلُوا إِلَی أَهْلِيهِمْ فَنَزَلُوا مَعَهُمْ حَتَّی إِذَا کَانَ بِهَا أَهْلُ أَبْيَاتٍ مِنْهُمْ وَشَبَّ الْغُلَامُ وَتَعَلَّمَ الْعَرَبِيَّةَ مِنْهُمْ وَأَنْفَسَهُمْ وَأَعْجَبَهُمْ حِينَ شَبَّ فَلَمَّا أَدْرَکَ زَوَّجُوهُ امْرَأَةً مِنْهُمْ وَمَاتَتْ أُمُّ إِسْمَاعِيلَ فَجَائَ إِبْرَاهِيمُ بَعْدَمَا تَزَوَّجَ إِسْمَاعِيلُ يُطَالِعُ تَرِکَتَهُ فَلَمْ يَجِدْ إِسْمَاعِيلَ فَسَأَلَ امْرَأَتَهُ عَنْهُ فَقَالَتْ خَرَجَ يَبْتَغِي لَنَا ثُمَّ سَأَلَهَا عَنْ عَيْشِهِمْ وَهَيْئَتِهِمْ فَقَالَتْ نَحْنُ بِشَرٍّ نَحْنُ فِي ضِيقٍ وَشِدَّةٍ فَشَکَتْ إِلَيْهِ قَالَ فَإِذَا جَائَ زَوْجُکِ فَاقْرَئِي عَلَيْهِ السَّلَامَ وَقُولِي لَهُ يُغَيِّرْ عَتَبَةَ بَابِهِ فَلَمَّا جَائَ إِسْمَاعِيلُ کَأَنَّهُ آنَسَ شَيْئًا فَقَالَ هَلْ جَائَکُمْ مِنْ أَحَدٍ قَالَتْ نَعَمْ جَائَنَا شَيْخٌ کَذَا وَکَذَا فَسَأَلَنَا عَنْکَ فَأَخْبَرْتُهُ وَسَأَلَنِي کَيْفَ عَيْشُنَا فَأَخْبَرْتُهُ أَنَّا فِي جَهْدٍ وَشِدَّةٍ قَالَ فَهَلْ أَوْصَاکِ بِشَيْئٍ قَالَتْ نَعَمْ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْکَ السَّلَامَ وَيَقُولُ غَيِّرْ عَتَبَةَ بَابِکَ قَالَ ذَاکِ أَبِي وَقَدْ أَمَرَنِي أَنْ أُفَارِقَکِ الْحَقِي بِأَهْلِکِ فَطَلَّقَهَا وَتَزَوَّجَ مِنْهُمْ أُخْرَی فَلَبِثَ عَنْهُمْ إِبْرَاهِيمُ مَا شَائَ اللَّهُ ثُمَّ أَتَاهُمْ بَعْدُ فَلَمْ يَجِدْهُ فَدَخَلَ عَلَی امْرَأَتِهِ فَسَأَلَهَا عَنْهُ فَقَالَتْ خَرَجَ يَبْتَغِي لَنَا قَالَ کَيْفَ أَنْتُمْ وَسَأَلَهَا عَنْ عَيْشِهِمْ وَهَيْئَتِهِمْ فَقَالَتْ نَحْنُ بِخَيْرٍ وَسَعَةٍ وَأَثْنَتْ عَلَی اللَّهِ فَقَالَ مَا طَعَامُکُمْ قَالَتْ اللَّحْمُ قَالَ فَمَا شَرَابُکُمْ قَالَتْ الْمَائُ قَالَ اللَّهُمَّ بَارِکْ لَهُمْ فِي اللَّحْمِ وَالْمَائِ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَکُنْ لَهُمْ يَوْمَئِذٍ حَبٌّ وَلَوْ کَانَ لَهُمْ دَعَا لَهُمْ فِيهِ قَالَ فَهُمَا لَا يَخْلُو عَلَيْهِمَا أَحَدٌ بِغَيْرِ مَکَّةَ إِلَّا لَمْ يُوَافِقَاهُ قَالَ فَإِذَا جَائَ زَوْجُکِ فَاقْرَئِي عَلَيْهِ السَّلَامَ وَمُرِيهِ يُثْبِتُ عَتَبَةَ بَابِهِ فَلَمَّا جَائَ إِسْمَاعِيلُ قَالَ هَلْ أَتَاکُمْ مِنْ أَحَدٍ قَالَتْ نَعَمْ أَتَانَا شَيْخٌ حَسَنُ الْهَيْئَةِ وَأَثْنَتْ عَلَيْهِ فَسَأَلَنِي عَنْکَ فَأَخْبَرْتُهُ فَسَأَلَنِي کَيْفَ عَيْشُنَا فَأَخْبَرْتُهُ أَنَّا بِخَيْرٍ قَالَ فَأَوْصَاکِ بِشَيْئٍ قَالَتْ نَعَمْ هُوَ يَقْرَأُ عَلَيْکَ السَّلَامَ وَيَأْمُرُکَ أَنْ تُثْبِتَ عَتَبَةَ بَابِکَ قَالَ ذَاکِ أَبِي وَأَنْتِ الْعَتَبَةُ أَمَرَنِي أَنْ أُمْسِکَکِ ثُمَّ لَبِثَ عَنْهُمْ مَا شَائَ اللَّهُ ثُمَّ جَائَ بَعْدَ ذَلِکَ وَإِسْمَاعِيلُ يَبْرِي نَبْلًا لَهُ تَحْتَ دَوْحَةٍ قَرِيبًا مِنْ زَمْزَمَ فَلَمَّا رَآهُ قَامَ إِلَيْهِ فَصَنَعَا کَمَا يَصْنَعُ الْوَالِدُ بِالْوَلَدِ وَالْوَلَدُ بِالْوَالِدِ ثُمَّ قَالَ يَا إِسْمَاعِيلُ إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي بِأَمْرٍ قَالَ فَاصْنَعْ مَا أَمَرَکَ رَبُّکَ قَالَ وَتُعِينُنِي قَالَ وَأُعِينُکَ قَالَ فَإِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أَبْنِيَ هَا هُنَا بَيْتًا وَأَشَارَ إِلَی أَکَمَةٍ مُرْتَفِعَةٍ عَلَی مَا حَوْلَهَا قَالَ فَعِنْدَ ذَلِکَ رَفَعَا الْقَوَاعِدَ مِنْ الْبَيْتِ فَجَعَلَ إِسْمَاعِيلُ يَأْتِي بِالْحِجَارَةِ وَإِبْرَاهِيمُ يَبْنِي حَتَّی إِذَا ارْتَفَعَ الْبِنَائُ جَائَ بِهَذَا الْحَجَرِ فَوَضَعَهُ لَهُ فَقَامَ عَلَيْهِ وَهُوَ يَبْنِي وَإِسْمَاعِيلُ يُنَاوِلُهُ الْحِجَارَةَ وَهُمَا يَقُولَانِ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ قَالَ فَجَعَلَا يَبْنِيَانِ حَتَّی يَدُورَا حَوْلَ الْبَيْتِ وَهُمَا يَقُولَانِ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
عبداللہ بن محمد عبدالرزاق معمر ایوب سختیانی کثیر بن کثیر بن مطلب بن ابووداعہ ایک دوسرے پر کچھ زیادتی بیان کرتا ہے سعید بن جبیر ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ عورتوں نے سب سے پہلے ازار بند بنانا اسماعیل کی ماں سے سیکھا انہوں نے ازار بند بنایا تاکہ اپنے نشانات کو سارہ سے چھپائیں پھر انہیں اور ان کے لڑکے اسماعیل کو ابراہیم لے کر آئے اور وہ انہیں دودھ پلاتی تھیں تو ان دونوں کو مسجد کے اوپری حصہ میں زمزم کے پاس کعبہ کے قریب ایک درخت کے پاس بٹھا دیا اور اس وقت مکہ میں نہ تو آدمی تھا نہ پانی ابراہیم نے انہیں وہاں بٹھا دیا اور ان کے پاس ایک چمڑے کے تھیلے میں کھجوریں اور مشکیزہ میں پانی رکھ دیا اس کے بعد ابراہیم لوٹ کر چلے تو اسماعیل کی والدہ نے ان کے پیچھے دوڑ کر کہا اے ابراہیم کہا جا رہے ہو اور ہمیں ایسے جنگل میں جہاں نہ کوئی آدمی ہے نہ اور کچھ (کس کے سہارے چھوڑے جا رہے ہو؟) اسماعیل کی والدہ نے یہ چند مرتبہ کہا مگر ابراہیم نے ان کی طرف مڑ کر بھی نہ دیکھا اسماعیل کی والدہ نے کہا کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں! ہاجرہ نے کہا تو اب اللہ بھی ہم کو برباد نہیں کرے گا پھر وہ واپس چلی آئیں اور ابرہیم چلے گئے حتیٰ کہ وہ ثنیہ کے پاس پہنچے، جہاں سے وہ لوگ انہیں دیکھ نہ سکتے تھے، تو انہوں نے اپنا منہ کعبہ کی طرف کر کے دونوں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کی کہ ( اے ہمارے رب میں اپنی اولاد کو آپ کے معظم گھر کے قریب ایک (کفدست) میدان میں جو زراعت کے قابل نہیں آباد کرتا ہوں) اور اسماعیل کی والدہ انہیں دودھ پلاتی تھیں اور اس مشکیزہ کا پانی پیتی تھیں حتی کہ جب وہ پانی ختم ہو گیا تو انہیں اور ان کے بچہ کو (سخت) پیاس لگی وہ اس بچہ کو دیکھنے لگیں کہ وہ مارے پیاس کے تڑپ رہا ہے یا فرمایا کہ ایڑیاں رگڑ رہا ہے وہ اس منظر کو دیکھنے کی تاب نہ لا کر چلیں اور انہوں نے اپنے قریب جو اس جگہ کے متصل تھا کوہ صفا کو دیکھا پس وہ اس پر چڑھ کر کھڑی ہوئیں اور جنگل کی طرف منہ کرکے دیکھنے لگیں کہ کوئی نظر آتا ہے یا نہیں؟ تو ان کو کوئی نظر نہ آیا (جس سے پانی مانگیں) پھر وہ صفا سے اتریں جب وہ نشیب میں پہنچیں تو اپنا دامن اٹھا کے ایسے دوڑیں جیسے کوئی سخت مصیب زدہ آدمی دوڑتا ہے حتیٰ کہ اس نشیب سے گزر گئیں پھر وہ کوہ مروہ پر آکر کھڑی ہوئیں اور ادھر ادھر دیکھا کہ کوئی نظر آتا ہے یا نہیں تو انہیں کوئی نظر نہ آیا اسی طرح انہوں نے سات مرتبہ کیا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اسی لئے لوگ صفا و مروہ کے درمیان سعی کرتے ہیں جب وہ آخری دفعہ کوہ مروہ پر چڑھیں تو انہوں نے ایک آواز سنی خود ہی کہنے لگیں ذرا ٹھہر کر سننا چاہئے تو انہوں نے کان لگایا تو پھر بھی آواز سنی خود ہی کہنے لگیں (اے شخص) تو نے آواز تو سنا دی کاش کہ تیرے پاس فریاد رسی بھی ہو، یکایک ایک فرشتہ کو مقام زمزم میں دیکھا اس فرشتہ نے اپنی ایڑی ماری یا فرمایا کہ اپنا پر مارا حتیٰ کہ پانی نکل آیا ہاجرہ اسے حوض کی شکل میں بنا کر روکنے لگیں اور ادھر ادھر کرنے لگیں اور چلو بھر بھر کے اپنی مشک میں ڈالنے لگیں ان کے چلو بھرنے کے بعد پانی زمین سے ابلنے لگا۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ اسماعیل کی والدہ پر رحم فرمائے اگر وہ زمزم کو (روکتی نہیں بلکہ) چھوڑ دیتیں یا فرمایا چلو بھر بھر کے نہ ڈالتیں تو زمزم ایک جاری رہنے والا چشمہ ہوتا پھر فرمایا کہ انہوں نے پانی پیا اور بچہ کو پلایا پھر ان سے فرشتہ نے کہا کہ تم اپنی ہلاکت کا اندیشہ نہ کرو کیونکہ یہاں بیت اللہ ہے جسے یہ لڑکا اور اس کے والد تعمیر کریں گے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ہلاک و برباد نہیں کرتا (اس وقت) بیت اللہ زمین سے ٹیلہ کی طرح اونچا تھا سیلاب آتے تھے تو اس کے دائیں بائیں کٹ جاتے تھے ہاجرہ اسی طرح رہتی رہیں یہاں تک کہ چند لوگ قبیلہ بنو جرہم کے ان کی طرف سے گزرے یا یہ فرمایا کہ بنو جرہم کے کچھ لوگ کدا کے راستہ سے لوٹے ہوئے آر ہے تھے تو وہ مکہ نشیب میں اترے انہوں نے کچھ پرندوں کو چکر لگاتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے کہا بیشک یہ پرندے پانی پر چکر لگا رہے ہیں (حالانکہ) ہمارا زمانہ اس وادی میں گزرا تو اس میں پانی نہ تھا انہوں نے ایک یا دو آدمیوں کو بھیجا تو انہوں نے پانی کو دیکھ لیا، واپس آکر انہوں نے سب کو پانی ملنے کی اطلاع دی وہ سب لوگ ادھر آنے لگے کہا کہ اسماعیل کی والدہ پانی کے پاس بیٹھی تھیں تو ان لوگوں نے کہا کیا تم اجازت دیتی ہو کہ ہم تمہارے پاس قیام کریں انہوں نے کہا اجازت ہے مگر پانی پر کوئی حق نہ ہوگا انہوں نے شرط منظور کرلی ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اسماعیل کی والدہ نے اسے غنیمت سمجھا وہ انسانوں سے انس رکھتی تھیں تو وہ لوگ مقیم ہو گئے اور اپنے اہل و عیال کو بھی پیغام بھیج کر وہاں بلا لیا انہوں نے بھی وہیں قیام کیا حتیٰ کہ ان کے پاس چند خاندان آباد ہو گئے اور اب اسماعیل بچہ سے بڑے ہو گئے اور انہوں نے بنوجرہم سے عربی سیکھ لی اور خود ان کی حالت بھی معلوم کرلی اسماعیل جب جوان ہوئے تو انہیں بڑے بھلے معلوم ہوئے جب اسماعیل بالغ ہوئے تو انہوں نے اپنے قبیلہ کی ایک عورت سے ان کا نکاح کر دیا اور اسماعیل کی والدہ وفات پاگئیں حضرت ابراہیم اپنے چھوڑے ہوؤں کو دیکھنے کے لئے اسماعیل کے نکاح کے بعد تشریف لائے تو اسماعیل کو نہ پایا ان کی بیوی سے معلوم کیا تو اس نے کہا کہ وہ ہمارے لئے رزق تلاش کرنے گئے ہیں پھر ابراہیم علیہ السلام نے اس سے بسر اوقات اور حالت معلوم کی تو اس عورت نے کہا ہماری بری حالت ہے اور ہم بڑی تنگی اور پریشانی میں مبتلا ہیں (گویا) انہوں نے ابراہیم سے شکوہ کیا ابراہیم نے کہا کہ جب تمہارے شوہر آ جائیں تو ان سے میرا سلام کہنا اور یہ کہنا کہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ تبدیل کردیں جب اسماعیل واپس آئے تو گویا انہوں نے اپنے والد کی تشریف آوری کے آثار پائے تو کہا کیا تمہارے پاس کوئی آدمی آیا تھا ؟ بیوی نے کہا ہاں! ایسا ایسا ایک بوڑھا شخص آیا تھا اس نے آپ کے بارے میں پوچھا تو میں نے بتا دیا اور اس نے ہماری بسر اوقات کے متعلق دریافت کیا تو میں نے بتا دیا کہ ہم تکلیف اور سختی میں ہیں اسماعیل نے کہا کیا انہوں نے کچھ پیغام دیا ہے؟ کہا ہاں! مجھ کو حکم دیا تھا کہ تمہیں ان کا سلام پہنچا دوں اور وہ کہتے تھے تم اپنے دروازہ کی چوکھٹ بدل دو اسماعیل نے کہا وہ میرے والد تھے اور انہوں نے مجھے تم کو جدا کرنے کا حکم دیا ہے لہذا تم اپنے گھر چلی جاؤ اور اس کو طلاق دے دی اور بنو جرہم کی کسی دوسری عورت سے نکاح کر لیا کچھ مدت کے بعد ابراہیم پھر آئے تو اسماعیل کو نہ پایا ان کی بیوی کے پاس آئے اور اس سے دریافت کیا تو اس نے کہا وہ ہمارے لئے رزق تلاش کرنے گئے ہیں ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا تمہارا کیا حال ہے؟ اور ان کی بسر اوقات معلوم کی اس نے کہا ہم اچھی حالت اور فراخی میں ہیں اور اللہ کی تعریف کی ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا تمہاری غذا کیا ہے؟ انہوں نے کہا گوشت ابراہیم نے پوچھا تمہارے پینے کی کیا چیز ہے؟ انہوں نے کہا پانی، ابراہیم نے دعا کی اے اللہ! ان کے لئے گوشت اور پانی میں برکت عطا فرما۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس وقت وہاں غلہ نہ ہوتا تھا اگر غلہ ہوتا تو اس میں بھی ان کے لئے دعا کرتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص مکہ کے سوا کسی اور جگہ گوشت اور پانی پر گزارہ نہیں کرسکتا صرف گوشت اور پانی مزاج کے موافق نہیں آ سکتا ابراہیم نے کہا جب تمہارے شوہر آ جائیں تو ان سے میرا سلام کہنا اور انہیں میری طرف سے یہ حکم دینا کہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ باقی رکھیں جب اسماعیل آئے تو پوچھا کیا تمہارے پاس کوئی آدمی آیا تھا ؟ بیوی نے کہا ہاں! ایک بزرگ خوبصورت پاکیزہ سیرت آئے تھے اور ان کی تعریف کی تو انہوں نے مجھ سے آپ کے بارے میں پوچھا تو میں نے بتا دیا پھر مجھ سے ہماری بسراوقات کے متعلق پوچھا تو میں نے بتایا کہ ہم بڑی اچھی حالت میں ہیں اسماعیل نے کہا کہ تمہیں وہ کوئی حکم دے گئے ہیں انہوں نے کہا کہ وہ آپ کو سلام کہہ گئے ہیں اور حکم دے گئے ہیں کہ آپ اپنے دروازہ کی چوکھٹ باقی رکھیں اسماعیل نے کہا وہ میرے والد تھے اور چوکھٹ سے تم مراد ہو گویا انہوں نے مجھے یہ حکم دیا کہ تمہیں اپنی زوجیت میں باقی رکھوں پھر ابراہیم کچھ مدت کے بعد پھر آئے اور اسماعیل کو زمزم کے قریب ایک درخت کے سایہ میں بیٹھے ہوئے اپنے تیر بناتے پایا جب اسماعیل نے انہیں دیکھا تو ان کی طرف بڑھے اور دونوں نے ایسا معاملہ کیا جیسے والد لڑکے سے اور لڑکا والد سے کرتا ہے ابراہیم نے کہا اے اسماعیل! اللہ نے مجھے ایک کام کا حکم دیا ہے انہوں نے عرض کیا کہ اس حکم کے مطابق عمل کیجئے ابراہیم بولے کیا تم میرا ہاتھ بٹاؤ گے؟ اسماعیل نے کہاں ہاں! میں آپ کا ہاتھ بٹاؤں گا ابراہیم نے کہا کہ اللہ نے مجھے یہاں بیت اللہ بنانے کا حکم دیا ہے اور آپ نے اس اونچے ٹیلے کی طرف اشارہ کیا یعنی اس کے گردا گرد ان دونوں نے کعبہ کی دیواریں بلند کیں اسماعیل پتھر لاتے تھے اور ابراہیم تعمیر کرتے تھے حتیٰ کہ جب دیوار بلند ہوئی تو اسماعیل ایک پتھر کو اٹھا لائے اور اسے ابراہیم کے لئے رکھ دیا ابراہیم اس پر کھڑے ہو کر تعمیر کرنے لگے اور اسماعیل انہیں پتھر دیتے تھے اور دونوں یہ دعا کرتے رہے کہ اے پروردگار! ہم سے (یہ کام) قبول فرما بیشک تو سننے والا جاننے والا ہے پھر دونوں تعمیر کرنے لگے اور کعبہ کے گرد گھوم کر یہ کہتے جاتے تھے اے ہمارے پروردگار ہم سے (یہ کام) قبول فرما بیشک تو سننے والا جاننے والا ہے۔
Narrated Ibn Abbas:
The first lady to use a girdle was the mother of Ishmael. She used a girdle so that she might hide her tracks from Sarah. Abraham brought her and her son Ishmael while she was suckling him, to a place near the Ka'ba under a tree on the spot of Zam-zam, at the highest place in the mosque. During those days there was nobody in Mecca, nor was there any water So he made them sit over there and placed near them a leather bag containing some dates, and a small water-skin containing some water, and set out homeward. Ishmael's mother followed him saying, "O Abraham! Where are you going, leaving us in this valley where there is no person whose company we may enjoy, nor is there anything (to enjoy)?" She repeated that to him many times, but he did not look back at her Then she asked him, "Has Allah ordered you to do so?" He said, "Yes." She said, "Then He will not neglect us," and returned while Abraham proceeded onwards, and on reaching the Thaniya where they could not see him, he faced the Ka'ba, and raising both hands, invoked Allah saying the following prayers:
'O our Lord! I have made some of my offspring dwell in a valley without cultivation, by Your Sacred House (Kaba at Mecca) in order, O our Lord, that they may offer prayer perfectly. So fill some hearts among men with love towards them, and (O Allah) provide them with fruits, so that they may give thanks.' (14.37) Ishmael's mother went on suckling Ishmael and drinking from the water (she had).
When the water in the water-skin had all been used up, she became thirsty and her child also became thirsty. She started looking at him (i.e. Ishmael) tossing in agony; She left him, for she could not endure looking at him, and found that the mountain of Safa was the nearest mountain to her on that land. She stood on it and started looking at the valley keenly so that she might see somebody, but she could not see anybody. Then she descended from Safa and when she reached the valley, she tucked up her robe and ran in the valley like a person in distress and trouble, till she crossed the valley and reached the Marwa mountain where she stood and started looking, expecting to see somebody, but she could not see anybody. She repeated that (running between Safa and Marwa) seven times."
The Prophet said, "This is the source of the tradition of the walking of people between them (i.e. Safa and Marwa). When she reached the Marwa (for the last time) she heard a voice and she asked herself to be quiet and listened attentively. She heard the voice again and said, 'O, (whoever you may be)! You have made me hear your voice; have you got something to help me?" And behold! She saw an angel at the place of Zam-zam, digging the earth with his heel (or his wing), till water flowed from that place. She started to make something like a basin around it, using her hand in this way, and started filling her water-skin with water with her hands, and the water was flowing out after she had scooped some of it."
The Prophet added, "May Allah bestow Mercy on Ishmael's mother! Had she let the Zam-zam (flow without trying to control it) (or had she not scooped from that water) (to fill her water-skin), Zam-zam would have been a stream flowing on the surface of the earth." The Prophet further added, "Then she drank (water) and suckled her child. The angel said to her, 'Don't be afraid of being neglected, for this is the House of Allah which will be built by this boy and his father, and Allah never neglects His people.' The House (i.e. Kaba) at that time was on a high place resembling a hillock, and when torrents came, they flowed to its right and left. She lived in that way till some people from the tribe of Jurhum or a family from Jurhum passed by her and her child, as they (i.e. the Jurhum people) were coming through the way of Kada'. They landed in the lower part of Mecca where they saw a bird that had the habit of flying around water and not leaving it. They said, 'This bird must be flying around water, though we know that there is no water in this valley.' They sent one or two messengers who discovered the source of water, and returned to inform them of the water. So, they all came (towards the water)." The Prophet added, "Ishmael's mother was sitting near the water. They asked her, 'Do you allow us to stay with you?" She replied, 'Yes, but you will have no right to possess the water.' They agreed to that." The Prophet further said, "Ishmael's mother was pleased with the whole situation as she used to love to enjoy the company of the people. So, they settled there, and later on they sent for their families who came and settled with them so that some families became permanent residents there. The child (i.e. Ishmael) grew up and learnt Arabic from them and (his virtues) caused them to love and admire him as he grew up, and when he reached the age of puberty they made him marry a woman from amongst them.
After Ishmael's mother had died, Abraham came after Ishmael's marriage in order to see his family that he had left before, but he did not find Ishmael there. When he asked Ishmael's wife about him, she replied, 'He has gone in search of our livelihood.' Then he asked her about their way of living and their condition, and she replied, 'We are living in misery; we are living in hardship and destitution,' complaining to him. He said, 'When your husband returns, convey my salutation to him and tell him to change the threshold of the gate (of his house).' When Ishmael came, he seemed to have felt something unusual, so he asked his wife, 'Has anyone visited you?' She replied, 'Yes, an old man of so-and-so description came and asked me about you and I informed him, and he asked about our state of living, and I told him that we were living in a hardship and poverty.' On that Ishmael said, 'Did he advise you anything?' She replied, 'Yes, he told me to convey his salutation to you and to tell you to change the threshold of your gate.' Ishmael said, 'It was my father, and he has ordered me to divorce you. Go back to your family.' So, Ishmael divorced her and married another woman from amongst them (i.e. Jurhum).
Then Abraham stayed away from them for a period as long as Allah wished and called on them again but did not find Ishmael. So he came to Ishmael's wife and asked her about Ishmael. She said, 'He has gone in search of our livelihood.' Abraham asked her, 'How are you getting on?' asking her about their sustenance and living. She replied, 'We are prosperous and well-off (i.e. we have everything in abundance).' Then she thanked Allah' Abraham said, 'What kind of food do you eat?' She said. 'Meat.' He said, 'What do you drink?' She said, 'Water." He said, "O Allah! Bless their meat and water." The Prophet added, "At that time they did not have grain, and if they had grain, he would have also invoked Allah to bless it." The Prophet added, "If somebody has only these two things as his sustenance, his health and disposition will be badly affected, unless he lives in Mecca." The Prophet added," Then Abraham said Ishmael's wife, "When your husband comes, give my regards to him and tell him that he should keep firm the threshold of his gate.' When Ishmael came back, he asked his wife, 'Did anyone call on you?' She replied, 'Yes, a good-looking old man came to me,' so she praised him and added. 'He asked about you, and I informed him, and he asked about our livelihood and I told him that we were in a good condition.' Ishmael asked her, 'Did he give you any piece of advice?' She said, 'Yes, he told me to give his regards to you and ordered that you should keep firm the threshold of your gate.' On that Ishmael said, 'It was my father, and you are the threshold (of the gate). He has ordered me to keep you with me.'
Then Abraham stayed away from them for a period as long as Allah wished, and called on them afterwards. He saw Ishmael under a tree near Zamzam, sharpening his arrows. When he saw Abraham, he rose up to welcome him (and they greeted each other as a father does with his son or a son does with his father). Abraham said, 'O Ishmael! Allah has given me an order.' Ishmael said, 'Do what your Lord has ordered you to do.' Abraham asked, 'Will you help me?' Ishmael said, 'I will help you.' Abraham said, Allah has ordered me to build a house here,' pointing to a hillock higher than the land surrounding it." The Prophet added, "Then they raised the foundations of the House (i.e. the Ka'ba). Ishmael brought the stones and Abraham was building, and when the walls became high, Ishmael brought this stone and put it for Abraham who stood over it and carried on building, while Ishmael was handing him the stones, and both of them were saying, 'O our Lord! Accept (this service) from us, Verily, You are the All-Hearing, the All-Knowing.' The Prophet added, "Then both of them went on building and going round the Ka'ba saying: O our Lord ! Accept (this service) from us, Verily, You are the All-Hearing, the All-Knowing." (2.127)