فرمان الٰہی اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں دنیا میں (اپنا) ایک خلیفہ بنانے والا ہوں کا بیان ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا لما علیھا حافظ یعنی مگر اس کا حفاظت کرنے والا ہے فی کبد کے معنی سخت پیدائش ریاشاً کے معنی مال دوسرے لوگوں نے کہا ہے ریاش اور ریش ایک ہی ہیں یعنی ظاہری لباس ماتمنون کے معنی ہیں کہ تم منی عورتوں کے رحم میں ڈالتے ہو اور مجاہد نے کہا کہ آیت کریمہ بے شک وہ اس کے واپس کر دینے پر قادر ہے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ نطفہ کو پھر احلیل ذکر میں واپس کر دے جو چیز بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی ہے وہ جفت ہے آسمان بھی جفت ہے اور یکتا تو اللہ تعالیٰ ہے فی احسن تقویم کے معنی ہیں عمدہ پیدائش میں اسفل سافلین سے مومن مستثنیٰ ہے خسرو کے معنی گمراہی پھر اس سے اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو مستثنیٰ کیا لازب کے معنی چپکنے والی ننشئکم یعنی جس صورت میں ہم چاہیں پیدا کر دیں نسبح بحمدک یعنی تیری عظمت بیان کرتے ہیں ابوالعالیہ نے کہا کہ فتلقی آدم من ربہ کلمات میں کلمات سے مراد ربنا ظلمنا انفسنا ہے فازلھما کے معنی ہیں کہ انہیں بہکا دیا یتسنہ کے معنی خراب ہو جاتا ہے اسن کے معنی متغیر مسنون کے معنی بھی متغیر حماء حماۃ کی جمع ہے سڑی ہوئی مٹی کو کہتے ہیں یخصفان یعنی جنت کے پتوں کو جوڑنے لگے یعنی ایک پتہ کو دوسرے پتہ پر جوڑنے لگے سواتھما یعنی ان کی شرمگاہیں متاع الی حین یہاں حین سے مراد قیامت کے دن تک ہے اہل عرب کے نزدیک حین کے معنی ایک ساعت سے لے کر لا تعداد وقت کے آتے ہیں قبیلہ کے معنی اس کی وہ جماعت جس سے وہ خود ہے۔
راوی: عبداللہ بن محمد عبدالرزاق معمرہمام ابوہریرہ
حَدَّثَنِا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ هَمَّامٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ وَطُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا ثُمَّ قَالَ اذْهَبْ فَسَلِّمْ عَلَی أُولَئِکَ مِنْ الْمَلَائِکَةِ فَاسْتَمِعْ مَا يُحَيُّونَکَ تَحِيَّتُکَ وَتَحِيَّةُ ذُرِّيَّتِکَ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْکُمْ فَقَالُوا السَّلَامُ عَلَيْکَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ فَزَادُوهُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ فَکُلُّ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَلَی صُورَةِ آدَمَ فَلَمْ يَزَلْ الْخَلْقُ يَنْقُصُ حَتَّی الْآنَ
عبداللہ بن محمد عبدالرزاق معمر ہمام حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور ان (کے قد) کی لمبائی ساٹھ گز تھی پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا جاؤ اور فرشتوں کو سلام کرو اور جو کچھ وہ جواب دیں اسے غور سے سنو! وہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا سلام ہوگا حضرت آدم نے فرشتوں کے پاس جا کر کہا السلام علیکم انہوں نے کہا السلام علیک ورحمۃ اللہ انہوں نے لفظ و رحمۃ اللہ زیادہ کیا پس جو شخص بھی جنت میں داخل ہوگا وہ آدم علیہ السلام کی صورت پر ہوگا (آدم علیہ السلام ساٹھ گز کے تھے لیکن اب تک مسلسل آدمیوں کا قد کم ہوتا رہا) ۔
Narrated Abu Huraira:
The Prophet said, "Allah created Adam, making him 60 cubits tall. When He created him, He said to him, "Go and greet that group of angels, and listen to their reply, for it will be your greeting (salutation) and the greeting (salutations of your offspring." So, Adam said (to the angels), As-Salamu Alaikum (i.e. Peace be upon you). The angels said, "As-salamu Alaika wa Rahmatu-l-lahi" (i.e. Peace and Allah's Mercy be upon you). Thus the angels added to Adam's salutation the expression, 'Wa Rahmatu-l-lahi,' Any person who will enter Paradise will resemble Adam (in appearance and figure). People have been decreasing in stature since Adam's creation.