باب (نیو انٹری)
راوی:
بَاب مَنْ تَصَدَّقَ إِلَى وَكِيلِهِ ثُمَّ رَدَّ الْوَكِيلُ إِلَيْهِ وَقَالَ إِسْمَاعِيلُ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ لَا أَعْلَمُهُ إِلَّا عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ جَاءَ أَبُو طَلْحَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ يَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي كِتَابِهِ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ وَإِنَّ أَحَبَّ أَمْوَالِي إِلَيَّ بَيْرُحَاءَ قَالَ وَكَانَتْ حَدِيقَةً كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُهَا وَيَسْتَظِلُّ بِهَا وَيَشْرَبُ مِنْ مَائِهَا فَهِيَ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَإِلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْجُو بِرَّهُ وَذُخْرَهُ فَضَعْهَا أَيْ رَسُولَ اللَّهِ حَيْثُ أَرَاكَ اللَّهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَخْ يَا أَبَا طَلْحَةَ ذَلِكَ مَالٌ رَابِحٌ قَبِلْنَاهُ مِنْكَ وَرَدَدْنَاهُ عَلَيْكَ فَاجْعَلْهُ فِي الْأَقْرَبِينَ فَتَصَدَّقَ بِهِ أَبُو طَلْحَةَ عَلَى ذَوِي رَحِمِهِ قَالَ وَكَانَ مِنْهُمْ أُبَيٌّ وَحَسَّانُ قَالَ وَبَاعَ حَسَّانُ حِصَّتَهُ مِنْهُ مِنْ مُعَاوِيَةَ فَقِيلَ لَهُ تَبِيعُ صَدَقَةَ أَبِي طَلْحَةَ فَقَالَ أَلَا أَبِيعُ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ بِصَاعٍ مِنْ دَرَاهِمَ قَالَ وَكَانَتْ تِلْكَ الْحَدِيقَةُ فِي مَوْضِعِ قَصْرِ بَنِي حُدَيْلَةَ الَّذِي بَنَاهُ مُعَاوِيَةُ
کسی شخص کا اپنے وکیل کو صدقہ دینے اور وکیل کا اس کو لوٹا دینے کا بیان ، اسمٰعیل کہتے ہیں کہ مجھے سے عبدالعزیز بن عبد ﷲ ابی سلمہ اسحٰق بن عبدﷲ بن ابی طلحہ نے کہا، میں اس حدیث کو حضرت انس ہی سے سمجھتا ہوں کہ وہ کہتے تھے، جب یہ آیت نازل ہوئی، لن تنالو البر حتی تنفقوا مما تحبون (تم ہرگز ثواب نہ پاؤ گے یہاں تک اس چیز کو خرچ کرو، جس کو تم دوست رکھتے ہو) تو ابو ظلحہ رسول اﷲ کے پاس آئے اور انہوں نے عرض کیا اے رسول خدا ﷲ اپنی کتاب میں فرماتا ہے لن تنالو البر حتی تنفقوا مماتحبون اور بے شک مجھے اپنے تمام مالوں میں بیرحاء مشہور باغ زیادہ محبوب ہے، حضرت انس کہتے ہیں، وہ ایک ایسا باغ تھا، جہاں رسول اﷲ بھی تشریف لے جاتے، اس کے سایہ میں بیٹھتے اور اس کا پانی پیتے، ابو طلحہ نے کہا تو وہ باغ ﷲ و رسول کیلئے صدقہ میں اس کے ثواب کی آخرت میں امید رکھتا ہوں یا رسول ﷲ اس کو جہاں ﷲ تعالیٰ آپ کو حکم دے خرچ کر دیجئے، رسول ﷲ نے فرمایا مبارک ہو، اے ابو طلحہ یہ تو فائدہ کی تجارت ہے۔ ہم نے اس کو تم سے قبول کر لیا۔ اور اب اس کو تمہیں واپس کرتے ہیں، تم اس کو اپنے عزیزوں میں تقسیم کردو، تب ابو طلحہ نے اس کو اپنے قرابت والوں میں تقسیم کر دیا، حضرت انس کہتے تھے، کہ انہی میں سے ابی اور حسان بھی تھے، انس کہتے تھے، کہ پھر حسان نے اپنا حصہ معاویہ کے ہاتھ فروخت کر ڈالا (۱) تو ان میں سے کسی نے کہا کہ تم ابو طلحہ کے صدقہ کو بیچ رہے ہو، انہوں نے جواب دیا، میں چھوھاروں کا ایک صاع ایک صاع درہم کے بدلے کیوں نہ بیچوں کیونکہ وہ بہت زیادہ مہنگی قیمت پر بک رہا ہے لہٰذا اس کو بیچ ڈالتا ہوں انس کہتے تھے، وہ باغ بنی جدیلہ کے محلہ کے برابر تھا جس کو معاویہ نے تعمیر کیا تھا۔