صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ تفاسیر کا بیان ۔ حدیث 2007

باب (نیو انٹری)

راوی:

سُورَةُ سَبَإٍ يُقَالُ مُعَاجِزِينَ مُسَابِقِينَ بِمُعْجِزِينَ بِفَائِتِينَ مُعَاجِزِيَّ مُسَابِقِيَّ سَبَقُوا فَاتُوا لَا يُعْجِزُونَ لَا يَفُوتُونَ يَسْبِقُونَا يُعْجِزُونَا وَقَوْلُهُ بِمُعْجِزِينَ بِفَائِتِينَ وَمَعْنَى مُعَاجِزِينَ مُغَالِبِينَ يُرِيدُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا أَنْ يُظْهِرَ عَجْزَ صَاحِبِهِ مِعْشَارٌ عُشْرٌ يُقَالُ الْأُكُلُ الثَّمَرُ بَاعِدْ وَبَعِّدْ وَاحِدٌ وَقَالَ مُجَاهِدٌ لَا يَعْزُبُ لَا يَغِيبُ سَيْلَ الْعَرِمِ السُّدُّ مَاءٌ أَحْمَرُ أَرْسَلَهُ اللَّهُ فِي السُّدِّ فَشَقَّهُ وَهَدَمَهُ وَحَفَرَ الْوَادِيَ فَارْتَفَعَتَا عَنْ الْجَنْبَيْنِ وَغَابَ عَنْهُمَا الْمَاءُ فَيَبِسَتَا وَلَمْ يَكُنْ الْمَاءُ الْأَحْمَرُ مِنْ السُّدِّ وَلَكِنْ كَانَ عَذَابًا أَرْسَلَهُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنْ حَيْثُ شَاءَ وَقَالَ عَمْرُو بْنُ شُرَحْبِيلَ الْعَرِمُ الْمُسَنَّاةُ بِلَحْنِ أَهْلِ الْيَمَنِ وَقَالَ غَيْرُهُ الْعَرِمُ الْوَادِي السَّابِغَاتُ الدُّرُوعُ وَقَالَ مُجَاهِدٌ يُجَازَى يُعَاقَبُ أَعِظُكُمْ بِوَاحِدَةٍ بِطَاعَةِ اللَّهِ مَثْنَى وَفُرَادَى وَاحِدٌ وَاثْنَيْنِ التَّنَاوُشُ الرَّدُّ مِنْ الْآخِرَةِ إِلَى الدُّنْيَا وَبَيْنَ مَا يَشْتَهُونَ مِنْ مَالٍ أَوْ وَلَدٍ أَوْ زَهْرَةٍ بِأَشْيَاعِهِمْ بِأَمْثَالِهِمْ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ كَالْجَوَابِ كَالْجَوْبَةِ مِنْ الْأَرْضِ الْخَمْطُ الْأَرَاكُ وَالْأَثَلُ الطَّرْفَاءُ الْعَرِمُ الشَّدِيدُ

سورہ سباکی تفسیر!
بسم اللہ الرحٰمن الرحیم
” معاجزین “ آگے بڑھنے والے ” معجزین “ ہاتھ سے نکل جانے والے ” سبقوا “ آگے نکل گئے ” لا یعجزون “ ہمارے ہاتھ سے نہیں نکل سکتے یسبقونا ہم سے آگے نکل جائیں گے ہم کو ہرادیں گے ” معجزین “ ہرا دینے والے چھوٹ جانے والے ” معاجزین “ غالب آنے والے ‘ ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ہر ایک اپنے ساتھی کی کمزوری ظاہر کردے ” معشار “ دسواں حصہ ” اکل “ کے معنی ثمرو پھل ” باعد “ اور بعد “ کے ایک ہی معنی ہیں یعنی دور کردے ‘ مجاہد کہتے ہیں کہ ” لا یعزب “ غائب نہیں ہوتا العرم پانی کا بند ایک لال پانی تھا جس میں اللہ کے حکم سے سیلاب آیا اور بند ٹوٹ گیا ‘ میدان میں گڑھا ہوگیا ‘ اور باغ دونوں طرف سے اونچے ہوگئے ‘ پھر پانی غائب ہوا تو باغ خشک ہوئے ‘ یہ بند سے بہہ کر نہیں آیا تھا ‘ بلکہ اللہ کا عذاب تھا ‘ اس نے جہاں سے چاہا وہاں سے بھیجا ‘ عمرو بن شرجیل کا بیان ہے ‘ کہ یمن والوں کی زبان میں ” العرم “ بند کو کہتے ہیں ‘ بعض لوگ ” عرم “ کے معنی نالہ کے کرتے ہیں ” السابغات “ کے معنی زر ہیں ‘ مجاہد کہتے ہیں کہ ” یجازیٰ “ کے معنی ہیں عذاب دیئے جاتےہیں ‘ بدلہ یا جزا دیتے ہیں یا دیں گے ” اعظکم بواحدة “ سے مراد اللہ کی اطاعت ہے ” مثنی “ اور ” فرادی “ کے معنی ہیں دو ‘ دو اور ایک ایک ” التناوش “ کو معنی آخرت سے لوٹ کر دنیا میں آنا ّ‘ جو کہ ناممکن ہے ” مایشتھون “ کے معنی ان کی خواہشات مال واولاد یا دنیا کی زینت و رونق کے معنی ہیں ‘ ان کے جوڑ والے ابن عباس کا بیان ہے کہ ” جواب “ کے معنی تالاب گڑھا ” خمط “ کڑوا بد مزہ مراد پیلو کا درخت ہے ” اثل “ جھاؤ کے درخت کو کہتے ہیں ‘ ” عرم “ سخت اور شدید چیز کو کہتے ہیں ۔

یہ حدیث شیئر کریں