اللہ تعالیٰ کا قول کہ اے مسلمانو! تم نبی کے گھر میں مت جایا کرو مگر اس صورت میں کہ تم کو کھانے کے لئے بلایا جائے اور تم کو اس کے پکنے کا بھی انتظار نہیں کرنا چاہئے اور جب بلایا جائے جاؤ اور کھانے کے بعد باتوں میں دل لگا کر مت بیٹھے رہا کرو تمہارا یہ عمل نبی کے لئے تکلیف کا باعث ہوتا ہے اور وہ شرم کرتے ہیں مگر اللہ سچی بات کہنے سے نہیں شرماتا اور جب ان سے کچھ طلب کرو تو پردے کی آڑ سے مانگو یہ بات تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کا سبب ہے تمہارا یہ کام نہیں کہ نبی کو تکلیف دو اور ان کی بیویوں سے کبھی نکاح مت کرنا بے شک تمہارا یہ عمل اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے " اناہ" کے معنی کھانا تیار ہونے کے میں یہ لفظ " انا، یانی، اناۃ" سے بنا ہے "لعل الساعۃ تکون قریبا " شاید قیامت عنقریب ہو جائے اگر قریبا کو ساعۃ کی صفت قرار دیا جائے تو قریۃ ہونا چاہئے اور اگر ظرف و بدل مانیں تو تائے تانیث کو ہٹا کر قریبا پڑھیں گے۔ ایسی حالت میں یہ واحد تثنیہ جمع سب ہی کے لئے ہوگا۔
راوی: زکریا بن یحیی , ابواسامہ , ہشام , عروہ , عائشہ
حَدَّثَنا زَکَرِيَّائُ بْنُ يَحْيَی حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ خَرَجَتْ سَوْدَةُ بَعْدَمَا ضُرِبَ الْحِجَابُ لِحَاجَتِهَا وَکَانَتْ امْرَأَةً جَسِيمَةً لَا تَخْفَی عَلَی مَنْ يَعْرِفُهَا فَرَآهَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَقَالَ يَا سَوْدَةُ أَمَا وَاللَّهِ مَا تَخْفَيْنَ عَلَيْنَا فَانْظُرِي کَيْفَ تَخْرُجِينَ قَالَتْ فَانْکَفَأَتْ رَاجِعَةً وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي وَإِنَّهُ لَيَتَعَشَّی وَفِي يَدِهِ عَرْقٌ فَدَخَلَتْ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي خَرَجْتُ لِبَعْضِ حَاجَتِي فَقَالَ لِي عُمَرُ کَذَا وَکَذَا قَالَتْ فَأَوْحَی اللَّهُ إِلَيْهِ ثُمَّ رُفِعَ عَنْهُ وَإِنَّ الْعَرْقَ فِي يَدِهِ مَا وَضَعَهُ فَقَالَ إِنَّهُ قَدْ أُذِنَ لَکُنَّ أَنْ تَخْرُجْنَ لِحَاجَتِکُنَّ
زکریا بن یحیی ، ابواسامہ، ہشام، عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ پردہ کی آیت نازل ہونے کے بعد حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رفع حاجت کے لئے چادر اوڑھ کر باہر گئیں چونکہ وہ بہت جسیم تھیں اس لئے باوجود چادر کے پہچانی جاتیں چنانچہ ایک دن وہ باہر گئیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پہچان کر کہا کہ آپ باوجود چادر کے ہم سے چھپی ہوئی نہیں ہیں سمجھ جاؤ کہ کس لئے نکلی ہو۔ حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی باتیں سن کر واپس آئیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر میں موجود تھے۔ کھانا کھا رہے تھے ایک ہڈی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں تھی حضرت سودہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں باہر گئی تھی تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ سے یہ باتیں کہیں ہیں آپ نے جب یہ سنا تو آپ صلی للہ علیہ وسلم پر نزول وحی ہونے لگی جب نازل ہو چکی تو ہڈی ہاتھ میں ہی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تم کو اجازت دیتا ہے کہ تم ضرورت کے لئے باہر جا سکتی ہو۔
Narrated Aisha:
Sauda (the wife of the Prophet) went out to answer the call of nature after it was made obligatory (for all the Muslims ladies) to observe the veil. She was a fat huge lady, and everybody who knew her before could recognize her. So 'Umar bin Al-Khattab saw her and said, "O Sauda! By Allah, you cannot hide yourself from us, so think of a way by which you should not be recognized on going out. Sauda returned while Allah's Apostle was in my house taking his supper and a bone covered with meat was in his hand. She entered and said, "O Allah's Apostle! I went out to answer the call of nature and 'Umar said to me so-and-so." Then Allah inspired him (the Prophet) and when the state of inspiration was over and the bone was still in his hand as he had not put in down, he said (to Sauda), "You (women) have been allowed to go out for your needs."