باب (نیو انٹری)
راوی:
سُورَةُ النُّورِ مِنْ خِلَالِهِ مِنْ بَيْنِ أَضْعَافِ السَّحَابِ سَنَا بَرْقِهِ وَهُوَ الضِّيَاءُ مُذْعِنِينَ يُقَالُ لِلْمُسْتَخْذِي مُذْعِنٌ أَشْتَاتًا وَشَتَّى وَشَتَاتٌ وَشَتٌّ وَاحِدٌ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ سُورَةٌ أَنْزَلْنَاهَا بَيَّنَّاهَا وَقَالَ غَيْرُهُ سُمِّيَ الْقُرْآنُ لِجَمَاعَةِ السُّوَرِ وَسُمِّيَتْ السُّورَةُ لِأَنَّهَا مَقْطُوعَةٌ مِنْ الْأُخْرَى فَلَمَّا قُرِنَ بَعْضُهَا إِلَى بَعْضٍ سُمِّيَ قُرْآنًا وَقَالَ سَعْدُ بْنُ عِيَاضٍ الثُّمَالِيُّ الْمِشْكَاةُ الْكُوَّةُ بِلِسَانِ الْحَبَشَةِ وَقَوْلُهُ تَعَالَى إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ تَأْلِيفَ بَعْضِهِ إِلَى بَعْضٍ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ فَإِذَا جَمَعْنَاهُ وَأَلَّفْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ أَيْ مَا جُمِعَ فِيهِ فَاعْمَلْ بِمَا أَمَرَكَ وَانْتَهِ عَمَّا نَهَاكَ اللَّهُ وَيُقَالُ لَيْسَ لِشِعْرِهِ قُرْآنٌ أَيْ تَأْلِيفٌ وَسُمِّيَ الْفُرْقَانَ لِأَنَّهُ يُفَرِّقُ بَيْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ وَيُقَالُ لِلْمَرْأَةِ مَا قَرَأَتْ بِسَلًا قَطُّ أَيْ لَمْ تَجْمَعْ فِي بَطْنِهَا وَلَدًا وَيُقَالُ فِي فَرَّضْنَاهَا أَنْزَلْنَا فِيهَا فَرَائِضَ مُخْتَلِفَةً وَمَنْ قَرَأَ فَرَضْنَاهَا يَقُولُ فَرَضْنَا عَلَيْكُمْ وَعَلَى مَنْ بَعْدَكُمْ وَقَالَ مُجَاهِدٌ أَوْ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا لَمْ يَدْرُوا لِمَا بِهِمْ مِنْ الصِّغَرِ وَقَالَ الشَّعْبِيُّ أُولِي الْإِرْبَةِ مَنْ لَيْسَ لَهُ أَرَبٌ وَقَالَ طَاوُسٌ هُوَ الْأَحْمَقُ الَّذِي لَا حَاجَةَ لَهُ فِي النِّسَاءِ وَقَالَ مُجَاهِدٌ لَا يُهِمُّهُ إِلَّا بَطْنُهُ وَلَا يَخَافُ عَلَى النِّسَاءِ
سورة نور کی تفسیر!
بسم اللہ الرحمن الرحیم
”یخرج من خلالہ‘ بادل کے پردوں کے بیچ سے نکلتا ہے‘ ‘سنا برقہ اس کی بجلی کی روشنی ”مذعنین“ عاجزی کرنے والا‘ یہ مذعن کی جمع ہے ”اشتاتا“ شتی‘ شتات‘ شت“ سب کے ایک ہی معنی ہیں‘ ابن عباس کہتے ہیں کہ ”سورة انزلنھا“ کے معنی بیان کیا ہم نے اس کو اور دوسرے لوگوں کا کہنا ہے کہ سورتوں کے مجموعہ کو قرآن اور سورت کو سورت اس لئے کہتے ہیں کہ دوسرے سے الگ ہے اور جو ملے ہوئے ہیں ‘ اس کو قرآن کہتے ہیں‘ سعد بن عیاض ثمالی کا بیان ہے کہ اس کو ابن شانے وصل کیا ہے‘ ”مشکاة“ چراغ رکھنے کا طاق یہ حبشی زبان کا لفظ ہے ”ان علینا جمعہ وقرانہ“ بیشک ہمارے ذمہ قرآن کا پڑھوا دینا ہے ”تالیف اکٹھا کرنا”واذا قراناہ فاتبع قرانہ“ جب ہم پڑھ چکیں تو آپ اس کی پیروی کریں ”قراناہ“ کے معنی ہم اس کو پڑھوا چکیں ”الفناہ“ اکٹھا کریں اس کو اور قرآن کو فرقان بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ حق و باطل کو علیحدہ علیحدہ کرتا ہے اور اہل عرب عورت کے لئے کہتے ہیں کہ ماقرات بسلاقط یعنی اس نے اپنے شکم میں بچہ کبھی نہیں رکھا ہے ‘اور جو ”فرضنھا“ تشدید سے پڑھتے ہیں‘ تو اس کے معنی یہ ہونگے کہ ہم نے مختلف فرائض اتارے اور جو ”فرضناھا“ بلا تشدید پڑھتے ہیں‘ تو معنی یہ ہوں گے کہ ہم نے تم پر اور روز قیامت تک آنے والوں پر فرض کیا مجاہد کہتے ہیں کہ ”اوالطفل الذین لم یظھروا علی عورات النسآئ“ سے مراد وہ بچے ہیں جو ابھی عورتوں کی پردے کی باتوں سے آگاہ نہیں ہوئے۔ شعبی کہتے ہیں اس سے وہ شخص مراد ہے جس میں قوت مردی نہ ہو‘ اور طاؤس کہتے کہ اس سے وہ احمق مراد ہے جو عورتوں سے بے پرواہ ہو۔ یعنی خیال نہ ہو۔ مجاہد کا بیان ہے کہ ”اولی الاربة“ اسے کہتے ہیں کہ جو کھانے پینے کے سوا کچھ غرض نہ رکھے اور یہ ڈر نہ ہو کہ عورتوں کو ہاتھ لگائے گا۔