اللہ تعالیٰ کا قول کہ جب موسیٰ وہاں سے آگے بڑھے تو اپنے ساتھی سے کہا کہ کھانا لاؤ ہم کو اس سفر سے تکان معلوم ہوتی ہے۔ "عجباً" تک "صنعا " کے معنی عمل "حولا " پھر جانا بدلنا ہٹنا۔ (قال ذلک ما کنا نبغ فارتدا علی اثارھما قصصا) " امرا و نکرا " دونوں کے ایک ہی معنی ہیں یعنی برا کام "ینقض" بمعنی گر جائے گی "لتخذت اور اتخذت" دونوں کے ایک ہی معنی ہوتے ہیں مشدد اور مخفف دونوں طرح معنی ایک ہی ہوں گے" رحما " رحم سے بنا ہے معنی ہیں بہت زیادہ رحم اور ہمدردی بعض اس کو "رحیم" سے مشتق کہتے ہیں مکہ کو " ام رحمتہ" کہتے ہیں کیونکہ رحمت وہاں نازل ہوتی ہے۔
راوی: قتیبہ بن سعید , سفیان بن عیینہ , عمرو بن دینار , سعید بن جبیر
حَدَّثَنِي قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنِي سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ نَوْفًا الْبَکَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَی بَنِي إِسْرَائِيلَ لَيْسَ بِمُوسَی الْخَضِرِ فَقَالَ کَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ کَعْبٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَامَ مُوسَی خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ فَقِيلَ لَهُ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ قَالَ أَنَا فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ وَأَوْحَی إِلَيْهِ بَلَی عَبْدٌ مِنْ عِبَادِي بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْکَ قَالَ أَيْ رَبِّ کَيْفَ السَّبِيلُ إِلَيْهِ قَالَ تَأْخُذُ حُوتًا فِي مِکْتَلٍ فَحَيْثُمَا فَقَدْتَ الْحُوتَ فَاتَّبِعْهُ قَالَ فَخَرَجَ مُوسَی وَمَعَهُ فَتَاهُ يُوشَعُ بْنُ نُونٍ وَمَعَهُمَا الْحُوتُ حَتَّی انْتَهَيَا إِلَی الصَّخْرَةِ فَنَزَلَا عِنْدَهَا قَالَ فَوَضَعَ مُوسَی رَأْسَهُ فَنَامَ قَالَ سُفْيَانُ وَفِي حَدِيثِ غَيْرِ عَمْرٍو قَالَ وَفِي أَصْلِ الصَّخْرَةِ عَيْنٌ يُقَالُ لَهَا الْحَيَاةُ لَا يُصِيبُ مِنْ مَائِهَا شَيْئٌ إِلَّا حَيِيَ فَأَصَابَ الْحُوتَ مِنْ مَائِ تِلْکَ الْعَيْنِ قَالَ فَتَحَرَّکَ وَانْسَلَّ مِنْ الْمِکْتَلِ فَدَخَلَ الْبَحْرَ فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ مُوسَی قَالَ لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَائَنَا الْآيَةَ قَالَ وَلَمْ يَجِدْ النَّصَبَ حَتَّی جَاوَزَ مَا أُمِرَ بِهِ قَالَ لَهُ فَتَاهُ يُوشَعُ بْنُ نُونٍ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَی الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ الْآيَةَ قَالَ فَرَجَعَا يَقُصَّانِ فِي آثَارِهِمَا فَوَجَدَا فِي الْبَحْرِ کَالطَّاقِ مَمَرَّ الْحُوتِ فَکَانَ لِفَتَاهُ عَجَبًا وَلِلْحُوتِ سَرَبًا قَالَ فَلَمَّا انْتَهَيَا إِلَی الصَّخْرَةِ إِذْ هُمَا بِرَجُلٍ مُسَجًّی بِثَوْبٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ مُوسَی قَالَ وَأَنَّی بِأَرْضِکَ السَّلَامُ فَقَالَ أَنَا مُوسَی قَالَ مُوسَی بَنِي إِسْرَائِيلَ قَالَ نَعَمْ قَالَ هَلْ أَتَّبِعُکَ عَلَی أَنْ تُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رَشَدًا قَالَ لَهُ الْخَضِرُ يَا مُوسَی إِنَّکَ عَلَی عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَکَهُ اللَّهُ لَا أَعْلَمُهُ وَأَنَا عَلَی عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَنِيهِ اللَّهُ لَا تَعْلَمُهُ قَالَ بَلْ أَتَّبِعُکَ قَالَ فَإِنْ اتَّبَعْتَنِي فَلَا تَسْأَلْنِي عَنْ شَيْئٍ حَتَّی أُحْدِثَ لَکَ مِنْهُ ذِکْرًا فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ عَلَی السَّاحِلِ فَمَرَّتْ بِهِمْ سَفِينَةٌ فَعُرِفَ الْخَضِرُ فَحَمَلُوهُمْ فِي سَفِينَتِهِمْ بِغَيْرِ نَوْلٍ يَقُولُ بِغَيْرِ أَجْرٍ فَرَکِبَا السَّفِينَةَ قَالَ وَوَقَعَ عُصْفُورٌ عَلَی حَرْفِ السَّفِينَةِ فَغَمَسَ مِنْقَارَهُ فِي الْبَحْرِ فَقَالَ الْخَضِرُ لِمُوسَی مَا عِلْمُکَ وَعِلْمِي وَعِلْمُ الْخَلَائِقِ فِي عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا مِقْدَارُ مَا غَمَسَ هَذَا الْعُصْفُورُ مِنْقَارَهُ قَالَ فَلَمْ يَفْجَأْ مُوسَی إِذْ عَمَدَ الْخَضِرُ إِلَی قَدُومٍ فَخَرَقَ السَّفِينَةَ فَقَالَ لَهُ مُوسَی قَوْمٌ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ عَمَدْتَ إِلَی سَفِينَتِهِمْ فَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ الْآيَةَ فَانْطَلَقَا إِذَا هُمَا بِغُلَامٍ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ فَأَخَذَ الْخَضِرُ بِرَأْسِهِ فَقَطَعَهُ قَالَ لَهُ مُوسَی أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَکِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُکْرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَکَ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِي صَبْرًا إِلَی قَوْلِهِ فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَقَالَ بِيَدِهِ هَکَذَا فَأَقَامَهُ فَقَالَ لَهُ مُوسَی إِنَّا دَخَلْنَا هَذِهِ الْقَرْيَةَ فَلَمْ يُضَيِّفُونَا وَلَمْ يُطْعِمُونَا لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا قَالَ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِکَ سَأُنَبِّئُکَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدِدْنَا أَنَّ مُوسَی صَبَرَ حَتَّی يُقَصَّ عَلَيْنَا مِنْ أَمْرِهِمَا قَالَ وَکَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَقْرَأُ وَکَانَ أَمَامَهُمْ مَلِکٌ يَأْخُذُ کُلَّ سَفِينَةٍ صَالِحَةٍ غَصْبًا وَأَمَّا الْغُلَامُ فَکَانَ کَافِرًا
قتیبہ بن سعید، سفیان بن عیینہ، عمرو بن دینار، سعید بن جبیر سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے کہا کہ نوف بکالی کہتا ہے کہ موسیٰ بنی اسرائیل کے نبی دوسرے تھے اور خضر والے موسیٰ دوسرے ابن عباس نے جواب دیا کہ وہ اللہ کا دشمن جھوٹ بولتا ہے کیونکہ ابی بن کعب نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ نے اپنی امت میں وعظ کیا لوگوں نے پوچھا کہ تمام آدمیوں میں سب سے بڑا عالم کون ہے؟ موسیٰ نے کہا میں ہوں اور یہ نہیں کہا کہ اللہ جاننے والا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ کو یہ بات ناگوار ہوئی اور وحی نازل کی کہ میرے بندوں میں ایک بندہ ہے جو مجمع البحرین میں ہے اور تم سے زیادہ جاننے والا ہے موسیٰ نے کہا اے اللہ! میں اس سے کس طرح مل سکتا ہوں؟ مجھے اس کا پتہ بتا، ارشاد ہوا کہ ایک مچھلی اپنی جھولی میں ڈال کر جاؤ جہاں وہ گم ہوجائے بس وہ اسی جگہ ہے حضرت موسیٰ نے ایسا ہی کیا اور اپنے خادم یوشع کو ہمراہ لے کر چلے اور ایک چٹان کے قریب پتھر پر سر رکھ کر سو گئے سفیان کہتے ہیں کہ قتادہ کی روایت میں ہے کہ اس چٹان کی جڑ میں ایک چشمہ تھا جس کو چشمہ آب حیات کہتے تھے جس مردے پر اس کا پانی پڑ جاتا وہ زندہ ہوجاتا، لہذا اس مچھلی پر بھی اس کا پانی پڑا جو زندہ ہوگئی اور سمندر میں تڑپ کر چلی گئی حضرت موسیٰ سو کر اٹھے اور خادم کے ساتھ آگے بڑھ گئے کچھ دورچل کر کہا ہمارا کھانا لاؤ اس وقت موسیٰ علیہ السلام کو معلوم ہوا کہ ہم اپنی مطلوبہ جگہ سے آگے بڑھ آئے ہیں چنانچہ قدموں کے نشانات دیکھتے ہوئے واپس لوٹے خادم نے کہا کہ میں آپ سے کہنا بھول گیا تھا کہ پتھر کے نزدیک مچھلی دریا میں گم ہوگئی تھی اور جس جگہ وہ گزری وہاں طاق کا سا نشان بنایا تھا غرض لوٹ کر جب اس جگہ پہنچے تو ایک بزرگ کو دیکھا جو کپڑے اوڑھے ہوئے تھا تو حضرت موسیٰ نے سلام کیا بزرگ نے کہا کہ کون ہو اور کہاں سے آئے ہو؟ آپ نے کہا میں موسیٰ ہوں خضر نے کہا بنی اسرائیل کے موسیٰ ہو؟ حضرت موسیٰ نے کہا جی ہاں! میں بنی اسرائیل کا موسیٰ ہو پھر حضرت موسیٰ نے کہا کیا میں تمہارے ساتھ رہ سکتا ہوں تاکہ مجھے اپنا علم سکھا دو؟ حضرت خضر نے کہا کہ اے موسیٰ ! اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو علم دیا ہے اسے میں نہیں جان سکتا ہوں اور مجھے جو علم دیا ہے اسے تم نہیں جان سکتے حضرت موسیٰ نے کہا میں تو ضرور آپ کے ساتھ رہوں گا آپ مجھے ضرور علم سکھا دیجئے، خضر نے کہا مگر میرے ساتھ تم اس شرط پر رہ سکتے ہو کہ جو کچھ کرتا رہوں تم ہرگز مت بولنا اور نہ پوچھنا تاوقتیکہ میں ہی تم کو نہ بتا دوں آخر حضرت موسیٰ اور خضر چل دیئے ایک دریا کے کنارے کنارے جا رہے تھے کہ ایک کشتی ملی ملاحوں نے حضرت خضر کو پہچان لیا اور بلا کسی اجرت کے دونوں کو کشتی میں بٹھا لیا پھر ایک پرندہ آیا اور اس نے اپنی چونچ میں دریا سے پانی لیا حضرت خضر نے کہا اے موسیٰ ! اللہ تعالیٰ کے علم کے سامنے ہمارا اور تمہارا علم ایسی ہی حیثیت رکھتا ہے جیسے پرندہ کے چونچ کا پانی، اس کے بعد حضرت خضر نے ایک جگہ سے کشتی کے ایک تختہ کو توڑ ڈالا حضرت موسیٰ کو بہت تعجب ہوا اور حضرت خضر سے کہنے لگے کہ ان بیچاروں نے تو ہم کو بلا اجرت کشتی میں بٹھایا ہے اور تم نے اس کو توڑ ڈالا ہے یہ تو تم نے سب کو غرق کرنے کا کام کیا ہے اچھا نہیں کیا، حضرت خضر نے کہا کہ میں تو پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے ہو پھر آگے بڑھے یہاں تک کہ ایک لڑکے پر آئے جو لڑکوں سے کھیل رہا تھا، حضرت خضر نے اس کو پکڑ کر مار ڈالا اور اس کے سر کو تن سے جدا کردیا حضرت موسیٰ نے کہا تم نے اس کو بلا قصور کیوں مار ڈالا؟ حضرت خضر نے کہا دیکھو کہ میں نے تو تم سے کہا تھا کہ تم میرے ہمراہ صبر نہیں کر سکوں گے حضرت موسیٰ نے کہا خیر اب کی مرتبہ اگر میں پوچھوں تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھئے گا پھر ایک گاؤں میں پہنچے وہاں کے لوگوں سے کھانا طلب کیا مگر گاؤں والوں نے مہمانی سے انکار کردیا اس گاؤں میں حضرت خضر نے ایک دیوار دیکھی جو گرنے والی تھی حضرت خضر نے اسے سیدھا کردیا، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا آپ نے دیوار کو سیدھا کردیا حالانکہ انہوں نے ہمیں کھانا بھی نہیں کھلایا اگر آپ چاہتے تو اس کی اجرت لیتے حضرت خضر نے اس مرتبہ حضرت موسیٰ سے فرمایا کہ بس اب تم مجھ سے علیحدہ ہو جاؤ کیونکہ تم میری باتوں پر صبر نہیں کر سکتے اور اب میں تم کو ان باتوں کی حقیقت بھی بتائے دیتا ہوں اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا ہوتا کہ موسیٰ صبر کرتے تاکہ کچھ اور باتیں ظہور میں آتیں سعید کہتے ہیں کہ ابن عباس اس طرح پڑھتے تھے (وَکَانَ أَمَامَهُمْ مَلِکٌ يَأْخُذُ کُلَّ سَفِينَةٍ صَالِحَةٍ غَصْبًا وَأَمَّا الْغُلَامُ فَکَانَ کَافِرًا الخ۔)
Narrated Said bin Jubair:
I said to Ibn 'Abbas, "Nauf-al-Bakali " claims that Moses of Bani Israel was not Moses, the companion of Al-Khadir." Ibn 'Abbas said, "Allah's enemy tells a lie! Ubai bin Ka'b narrated to us that Allah's Apostle said, 'Moses got up to deliver a sermon before Bani Israel and he was asked, 'Who is the most learned person among the people?' Moses replied, 'I (am the most learned).' Allah then admonished Moses for he did not ascribe all knowledge to Allah only (Then) came the Divine Inspiration:– 'Yes, one of Our slaves at the junction of the two seas is more learned than you.'
Moses said, 'O my Lord ! How can meet him?' Allah said, 'Take a fish in a basket and wherever the fish is lost, follow it (you will find him at that place). So Moses set out along with his attendant Yusha' bin Nun, and they carried with them a fish till they reached a rock and rested there. Moses put his head down and slept. (Sufyan, a sub-narrator said that somebody other than 'Amr said) 'At the rock there was a water spring called 'Al-Hayat' and none came in touch with its water but became alive. So some of the water of that spring fell over that fish, so it moved and slipped out of the basket and entered the sea. When Moses woke up, he asked his attendant, 'Bring our early meal' (18.62).
The narrator added: Moses did not suffer from fatigue except after he had passed the place he had been ordered to observe. His attendant Yusha bin Nun said to him, 'Do you remember (what happened) when we betook ourselves to the rock? I did indeed forget (about) the fish …' (18.63) The narrator added: So they came back, retracing their steps and then they found in the sea, the way of the fish looking like a tunnel. So there was an astonishing event for his attendant, and there was tunnel for the fish. When they reached the rock, they found a man covered with a garment. Moses greeted him. The man said astonishingly, 'Is there any such greeting in your land?' Moses said, 'I am Moses.' The man said, 'Moses of Bani Israel?' Moses said, 'Yes,' and added, 'may I follow you so that you teach me something of the Knowledge which you have been taught?' (18.66). Al-Khadir said to him, 'O Moses! You have something of Allah's knowledge which Allah has taught you and which I do not know; and I have something of Allah's knowledge which Allah has taught me and which you do not know.' Moses said, 'But I will follow you.' Al-Khadir said, 'Then if you follow me, ask me no question about anything until I myself speak to you concerning it.' (18.70). After that both of them proceeded along the seashore. There passed by them a boat whose crew recognized Al-Khadir and received them on board free of charge. So they both got on board. A sparrow came and sat on the edge of the boat and dipped its beak unto the sea. Al-Khadir said to Moses. 'My knowledge and your knowledge and all the creation's knowledge compared to Allah's knowledge is not more than the water taken by this sparrow's beak.'
Then Moses was startled by Al-Khadir's action of taking an adze and scuttling the boat with it. Moses said to him, 'These people gave us a free lift, but you intentionally scuttled their boat so as to drown them. Surely you have…' (18.71) Then they both proceeded and found a boy playing with other boys. Al-Khadir took hold of him by the head and cut it off. Moses said to him, 'Have you killed an innocent soul who has killed nobody? Surely you have done an illegal thing! ' (18.74) He said, "Didn't I tell you that you will not be able to have patient with me up to ..but they refused to entertain them as their guests. There they found a wall therein at the point of collapsing.' (18.75-77) Al-Khadir moved his hand thus and set it upright (repaired it). Moses said to him, 'When we entered this town, they neither gave us hospitality nor fed us; if you had wished, you could have taken wages for it,' Al-Khadir said, 'This is the parting between you and me I will tell you the interpretation of (those things) about which you were unable to hold patience.'…(18.78)
Allah's Apostle said, 'We wished that Moses could have been more patient so that He (Allah) could have described to us more about their story.' Ibn 'Abbas used to recite:– 'And in front (ahead) of them there was a king who used to seize every (serviceable) boat by force. (18.79) …and as for the boy he was a disbeliever. "