باب (نیو انٹری)
راوی:
سُورَةُ الْكَهْفِ وَقَالَ مُجَاهِدٌ تَقْرِضُهُمْ تَتْرُكُهُمْ وَكَانَ لَهُ ثُمُرٌ ذَهَبٌ وَفِضَّةٌ وَقَالَ غَيْرُهُ جَمَاعَةُ الثَّمَرِ بَاخِعٌ مُهْلِكٌ أَسَفًا نَدَمًا الْكَهْفُ الْفَتْحُ فِي الْجَبَلِ وَالرَّقِيمُ الْكِتَابُ مَرْقُومٌ مَكْتُوبٌ مِنْ الرَّقْمِ رَبَطْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ أَلْهَمْنَاهُمْ صَبْرًا لَوْلَا أَنْ رَبَطْنَا عَلَى قَلْبِهَا شَطَطًا إِفْرَاطًا الْوَصِيدُ الْفِنَاءُ جَمْعُهُ وَصَائِدُ وَوُصُدٌ وَيُقَالُ الْوَصِيدُ الْبَابُ مُؤْصَدَةٌ مُطْبَقَةٌ آصَدَ الْبَابَ وَأَوْصَدَ بَعَثْنَاهُمْ أَحْيَيْنَاهُمْ أَزْكَى أَكْثَرُ وَيُقَالُ أَحَلُّ وَيُقَالُ أَكْثَرُ رَيْعًا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ أُكْلَهَا وَلَمْ تَظْلِمْ لَمْ تَنْقُصْ وَقَالَ سَعِيدٌ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ الرَّقِيمُ اللَّوْحُ مِنْ رَصَاصٍ كَتَبَ عَامِلُهُمْ أَسْمَاءَهُمْ ثُمَّ طَرَحَهُ فِي خِزَانَتِهِ فَضَرَبَ اللَّهُ عَلَى آذَانِهِمْ فَنَامُوا وَقَالَ غَيْرُهُ وَأَلَتْ تَئِلُ تَنْجُو وَقَالَ مُجَاهِدٌ مَوْئِلًا مَحْرِزًا لَا يَسْتَطِيعُونَ سَمْعًا لَا يَعْقِلُونَ
سورة کہف کی تفسیر!
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مجاہد کہتے ہیں کہ ”تقرضھم“ کے معنی ان سے کترا جاتا ہے وکان لہ ”ثمر“ کا مطلب سونا اور چاندی ہے‘ بعض کہتے ہیں کہ مراد پھل ہیں ”باخع“ کے معنی ہلاک کرنے والا ”اسفا“ ندامت ”کہف“ پہاڑ کی کھوہ ”الرقیم“ مرقوم یعنی لکھا ہوا رقم سے ”ربطنا علی قلوبھم“ ڈالا ہم نے ان کے دلوں میں صبرغ جیسے ”ربطنا علی قلبھا“ یہاں بھی صبر ہی مراد ہے ”شططا“ کے معنی حد سے بڑھنا ”مرفق“ وہ چیز جس پر تکیہ لگاتے ہیں ”تزاور“ زور سے مشتق ہے یعنی جھک جاتا تھا‘ اور اسی سے ازور بنا ہے‘ ”بہت جھکنے والا“ فجوہ“ کشادہ جمع فجوات ہے‘”فجائ“ بھی آتی ہے جس طرح ”زکوة“ کی ”زکائ“ ہے۔”وصید “ کے معنی آنگن اس کی جمع وصائد اور وصد ہے کسی کا کہنا ہے کہ ”وصید“ کے معنی دروازہ”موصدة“ بند کی ہوئی‘ عرب کہتے ہیں کہ ”آصد الباب “ اور ”اوصد الباب “ یعنی دروازہ بند کر دیا ”بعثناھم“ کے معنی زندہ کیا ہم نے ”ازکی طعاما“ بستی والوں کی عام خوراک یا جو حلال ہو‘ یا جو پک کر بڑھ جائے”اکلھا“ میوہ اپنا ابن عباس کا قول ہے کہ ”لم تظلم“ کے معنی ہیں کہ میوہ کم نہیں ہوا‘ سعید‘ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ ”رقیم“ ایک تختی ہے جو سیسہ کی ہے‘ اس پر حاکم وقت نے اصحاب کہف کے نام کھدوا کر خزانہ میں جمع کر دیا”ضرب اللہ علی اذانھم“ یعنی سو گئے دوسرے کہتے ہیں کہ ”موئلا“ جائے پناہ اور یہ ”والت تئل“ سے بنا، مجاہد کہتے ہیں ”موئل“ محفوظ مقام ”لا یستطیعون سمعا“ یعنی وہ عقل سے کام نہیں لیتے۔