صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ تفاسیر کا بیان ۔ حدیث 1899

باب (نیو انٹری)

راوی:

سُورَةُ النَّحْلِ رُوحُ الْقُدُسِ جِبْرِيلُ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ فِي ضَيْقٍ يُقَالُ أَمْرٌ ضَيْقٌ وَضَيِّقٌ مِثْلُ هَيْنٍ وَهَيِّنٍ وَلَيْنٍ وَلَيِّنٍ وَمَيْتٍ وَمَيِّتٍ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ تَتَفَيَّأُ ظِلَالُهُ تَتَهَيَّأُ سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا لَا يَتَوَعَّرُ عَلَيْهَا مَكَانٌ سَلَكَتْهُ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فِي تَقَلُّبِهِمْ اخْتِلَافِهِمْ وَقَالَ مُجَاهِدٌ تَمِيدُ تَكَفَّأُ مُفْرَطُونَ مَنْسِيُّونَ وَقَالَ غَيْرُهُ فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنْ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ هَذَا مُقَدَّمٌ وَمُؤَخَّرٌ وَذَلِكَ أَنَّ الِاسْتِعَاذَةَ قَبْلَ الْقِرَاءَةِ وَمَعْنَاهَا الِاعْتِصَامُ بِاللَّهِ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ تُسِيمُونَ تَرْعَوْنَ شَاكِلَتِهِ نَاحِيَتِهِ قَصْدُ السَّبِيلِ الْبَيَانُ الدِّفْءُ مَا اسْتَدْفَأْتَ تُرِيحُونَ بِالْعَشِيِّ وَ تَسْرَحُونَ بِالْغَدَاةِ بِشِقِّ يَعْنِي الْمَشَقَّةَ عَلَى تَخَوُّفٍ تَنَقُّصٍ الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً وَهِيَ تُؤَنَّثُ وَتُذَكَّرُ وَكَذَلِكَ النَّعَمُ الْأَنْعَامُ جَمَاعَةُ النَّعَمِ أَكْنَانٌ وَاحِدُهَا كِنٌّ مِثْلُ حِمْلٍ وَأَحْمَالٍ سَرَابِيلَ قُمُصٌ تَقِيكُمْ الْحَرَّ وَأَمَّا سَرَابِيلَ تَقِيكُمْ بَأْسَكُمْ فَإِنَّهَا الدُّرُوعُ دَخَلًا بَيْنَكُمْ كُلُّ شَيْءٍ لَمْ يَصِحَّ فَهُوَ دَخَلٌ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ حَفَدَةً مَنْ وَلَدَ الرَّجُلُ السَّكَرُ مَا حُرِّمَ مِنْ ثَمَرَتِهَا وَالرِّزْقُ الْحَسَنُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ وَقَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ صَدَقَةَ أَنْكَاثًا هِيَ خَرْقَاءُ كَانَتْ إِذَا أَبْرَمَتْ غَزْلَهَا نَقَضَتْهُ وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ الْأُمَّةُ مُعَلِّمُ الْخَيْرِ وَالْقَانِتُ الْمُطِيعُ

سورة نحل کی تفسیر!
بسم اللہ الرحمن الرحیم
”روح القدس“ جبریل کو کہتے ہیں ”ضیق“ اور ضیق“ کے معنی ایک ہیں‘ جس طرح‘ ”میّت“ اور ”میت“ یا ھین“ اور ”ھین‘” یا لین“ اور ”لین“ ابن عباس کہتے ہیں کہ ”فی تقلبھم“ کے معنی ہیں ان کے چلتے پھرتے ‘ مجاہد کہتے ہیں کہ ”تمید“ کے معنی جھک جائے‘ لٹک جائے‘ الٹ جائے اور ”مفرطون“ کے معنی آگے بڑھائے ہوئے بعض نے کہا ”فاذا قرات بالقرآن فاستعذ باللہ“ میں عبارت آگے پیچھے ہو گئی ہے کیونکہ اعوذ باللہ پہلے پڑھنا چاہئے ”استعاذہ“ پناہ مانگنا‘ ابن عباس نے کہا کہ ’تسیمون“ چراتے ہیں”شاکلتہ“ اپنے اپنے طریق پر ”قصد السبیل“ سچے راستہ کا بیان ”الدف“ وہ چیز جس سے سردی دور ہو ”ماستدفات“ وہ چیز جس سے گرمی حاصل ہو ”تریحون“ شام کو لاتے ہو ”تسرحون“ صبح کو چرانے لے جاتے ہیں ”بشق“ تکلیف اٹھاکر ”تخوف“ نقصان ”انعام“”نعم“ کی جمع ہے اور نر و مادہ دونوں کے لئے بولا جاتا ہے ”اکنان“ پناہ گاہیں“ ”سرابیل“ تقیکم الحر“ سے قمیصیں مراد ہیں اور ”سرابیل تقیکم باسکم“ سے زرہیں مراد ہیں ”داخل “ ناجائز بات کو کہتے ہیں ‘ یعنی خیانت‘ حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ ”فدہ کے معنی پوتی یا پوتا کے ہیں ‘ یعنی آدمی کی اولاد” السکر“ کے معنی نشہ ‘ شراب نشے والی” زرقا حسنا“ جس کو اللہ نے حلال کیا‘ ابن عیینہ‘ صدقہ سے نقل کرتے ہیں‘ کہ ”انکاثا“ کے معنی ٹکڑے ٹکڑے ‘ یہ ایک مکہ کی عورت تھی جو کہ صبح کو سوت کاتتی تھی‘ اور دوپہر کوٹکڑے کر دیتی تھی‘ ابن مسعود کہتے ہیں کہ ”الامة“ کے معنی ملت‘ یعنی معلم الخیر کو کہتے ہیں یعنی نیکی سکھانے والا‘ قانت“ فرمانبردار ۔

یہ حدیث شیئر کریں