اللہ تعالیٰ کا قول کہ تم ان لوگوں سے اپنی بہت برائیاں سنو گے جن کو کہ تم سے پہلے کتاب دی گئی ہے اور ان سے بھی جو کافرو مشرک ہیں کی تفسیر۔
راوی: ابو الیمان , شعیب , زہری , عروہ بن زبیر , اسامہ بن زید
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَکِبَ عَلَی حِمَارٍ عَلَی قَطِيفَةٍ فَدَکِيَّةٍ وَأَرْدَفَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ وَرَائَهُ يَعُودُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ فِي بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ قَبْلَ وَقْعَةِ بَدْرٍ قَالَ حَتَّی مَرَّ بِمَجْلِسٍ فِيهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ وَذَلِکَ قَبْلَ أَنْ يُسْلِمَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ فَإِذَا فِي الْمَجْلِسِ أَخْلَاطٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُشْرِکِينَ عَبَدَةِ الْأَوْثَانِ وَالْيَهُودِ وَالْمُسْلِمِينَ وَفِي الْمَجْلِسِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ فَلَمَّا غَشِيَتْ الْمَجْلِسَ عَجَاجَةُ الدَّابَّةِ خَمَّرَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ أَنْفَهُ بِرِدَائِهِ ثُمَّ قَالَ لَا تُغَبِّرُوا عَلَيْنَا فَسَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ ثُمَّ وَقَفَ فَنَزَلَ فَدَعَاهُمْ إِلَی اللَّهِ وَقَرَأَ عَلَيْهِمْ الْقُرْآنَ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ أَيُّهَا الْمَرْئُ إِنَّهُ لَا أَحْسَنَ مِمَّا تَقُولُ إِنْ کَانَ حَقًّا فَلَا تُؤْذِنَا بِهِ فِي مَجْلِسِنَا ارْجِعْ إِلَی رَحْلِکَ فَمَنْ جَائَکَ فَاقْصُصْ عَلَيْهِ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ بَلَی يَا رَسُولَ اللَّهِ فَاغْشَنَا بِهِ فِي مَجَالِسِنَا فَإِنَّا نُحِبُّ ذَلِکَ فَاسْتَبَّ الْمُسْلِمُونَ وَالْمُشْرِکُونَ وَالْيَهُودُ حَتَّی کَادُوا يَتَثَاوَرُونَ فَلَمْ يَزَلْ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخَفِّضُهُمْ حَتَّی سَکَنُوا ثُمَّ رَکِبَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَابَّتَهُ فَسَارَ حَتَّی دَخَلَ عَلَی سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا سَعْدُ أَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالَ أَبُو حُبَابٍ يُرِيدُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ قَالَ کَذَا وَکَذَا قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ اعْفُ عَنْهُ وَاصْفَحْ عَنْهُ فَوَالَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْکَ الْکِتَابَ لَقَدْ جَائَ اللَّهُ بِالْحَقِّ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْکَ لَقَدْ اصْطَلَحَ أَهْلُ هَذِهِ الْبُحَيْرَةِ عَلَی أَنْ يُتَوِّجُوهُ فَيُعَصِّبُوهُ بِالْعِصَابَةِ فَلَمَّا أَبَی اللَّهُ ذَلِکَ بِالْحَقِّ الَّذِي أَعْطَاکَ اللَّهُ شَرِقَ بِذَلِکَ فَذَلِکَ فَعَلَ بِهِ مَا رَأَيْتَ فَعَفَا عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَکَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ يَعْفُونَ عَنْ الْمُشْرِکِينَ وَأَهْلِ الْکِتَابِ کَمَا أَمَرَهُمْ اللَّهُ وَيَصْبِرُونَ عَلَی الْأَذَی قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنْ الَّذِينَ أُوتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَمِنْ الَّذِينَ أَشْرَکُوا أَذًی کَثِيرًا الْآيَةَ وَقَالَ اللَّهُ وَدَّ کَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْکِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَکُمْ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِکُمْ کُفَّارًا حَسَدًا مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ إِلَی آخِرِ الْآيَةِ وَکَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَأَوَّلُ الْعَفْوَ مَا أَمَرَهُ اللَّهُ بِهِ حَتَّی أَذِنَ اللَّهُ فِيهِمْ فَلَمَّا غَزَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَدْرًا فَقَتَلَ اللَّهُ بِهِ صَنَادِيدَ کُفَّارِ قُرَيْشٍ قَالَ ابْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ وَمَنْ مَعَهُ مِنْ الْمُشْرِکِينَ وَعَبَدَةِ الْأَوْثَانِ هَذَا أَمْرٌ قَدْ تَوَجَّهَ فَبَايَعُوا الرَّسُولَ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی الْإِسْلَامِ فَأَسْلَمُوا
ابو الیمان، شعیب، زہری، عروہ بن زبیر، حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے گدھے پر بیٹھے تھے جس پر شہر فد کیہ کی بنی ہوئی چادر پڑی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے پیچھے سوار کرلیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دیکھنے کو تشریف لے گئے اور یہ جنگ بدر سے پہلے کا واقعہ ہے راستہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے ان میں مشہور منافق عبداللہ بن ابی بن ابی سلول بھی بیٹھا ہوا تھا اور وہ اس وقت تک ظاہرا بھی اسلام نہیں لایا تھا اس مجلس میں مسلمان، مشرک اور یہودی بھی بیٹھے تھے اور ان میں عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی بیٹھے تھے جو مسلمان اور صحابی تھے چنانچہ گدھے کے چلنے سے گرد اڑی جو ان پر پڑی تو عبداللہ بن ابی نے اپنی ناک کو چادر سے چھپا دیا اور کہا کہ گرد مت اڑاؤ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سلام کیا پھر سواری سے اترے قرآن کی تلاوت فرمائی اور ان سب کو اللہ تعالیٰ کی طرف آنے کی دعوت دی عبداللہ بن ابی نے کہا اگر تم سچے ہو اور تمہاری بات بھی بہت عمدہ ہے مگر ہمارے کان مت کھاؤ اپنے گھر میں جاؤ اور جو وہاں تمہارے پاس جائے اس کو سناؤ، عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ہاں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر میں تشریف لایا کیجئے اور ہم کو سنایا کیجئے کیونکہ ہم کو یہ باتیں بھی بہت اچھی معلوم ہوتی ہیں اس کے بعد مسلمانوں اور کافروں میں کچھ ناگوار، تلخ گفتگو شروع ہوگئی یہاں تک کہ ہا تھا پائی تک نوبت پہنچ گئی آخر معاملہ رفع دفع ہوگیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی سواری پر سوار ہو گئے اور سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے یہاں سے تشریف لے گئے اور حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ اے سعد! کیا تم نے ابوحباب سے باتیں کی ہیں؟ یعنی عبداللہ بن ابی نے اس قسم کی باتیں سنی ہیں حضرت سعد بن عبادہ نے یہ سن کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ فکر نہ کریں اور اس کی باتوں کا کوئی خیال نہ فرمائیں وہ اپنے حسد کی وجہ سے یہ سب کچھ کرنے پر مجبور ہے میں اس ذات کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جس نے آپ پر قرآن اتارا ہے جو کچھ آپ پر نازل ہو رہا ہے وہ برحق اور صحیح ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے نبی اور رسول ہیں بات یہ ہے کہ مدینہ کے لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے سے پہلے یہ طے کرلیا تھا کہ ہم عبداللہ بن ابی کو اپنا سردار بنائیں گے اور اس کو تاج پہنائیں گے لیکن پھر آپ تشریف لے آئے اور اس کو یہ بات ناگوار گزری۔ اس لئے وہ آپ کی شان میں گستاخی کرتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو معاف کردیا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اصحاب کی یہ عادت تھی کہ وہ ہمیشہ کافروں کی گستاخیوں کو معاف کردیا کرتے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور اوپر کی وَلَتَسْمَعُنَّ مِنْ الَّذِينَ أُوتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَمِنْ الَّذِينَ أَشْرَکُوا أَذًی کَثِيرًا۔ الایۃ گزری اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے وَدَّ کَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْکِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَکُمْ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِکُمْ کُفَّارًا۔ الی آخر الایۃ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ کافروں کی تکلیف کے بارے میں وہی کیا کرتے تھے جو اللہ تعالیٰ ارشاد فرمایا کرتا تھا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے کافروں سے جہاد کا حکم نازل فرمایا اور اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بدر کی جنگ کی اور مکہ کے بڑے بڑے کفار مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل کئے گئے اس وقت عبداللہ بن ابی اپنے ساتھیوں سے کہتا تھا کہ اب یہ دین غالب ہوگیا ہے اور اس میں شریک ہونے کا وقت ہونے گیا ہے لہذا مسلمان ہو جاؤ اور ظاہر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کرکے خود کو مسلمان ظاہر کرتے رہو گویا منافق بنے رہو۔
Narrated Usama bin Zaid:
Allah's Apostle rode a donkey, equipped with a thick cloth-covering made in Fadak and was riding behind him. He was going to pay visit to Sad bin Ubada in Banu Al-Harith bin Al-Khazraj; and this incident happened before the battle of Badr. The Prophet passed by a gathering in which 'Abdullah bin Ubai bin Salul was present, and that was before 'Abdullah bin Ubai embraced Islam. Behold in that gathering there were people of different religions: there were Muslims, pagans, idol-worshippers and Jews, and in that gathering 'Abdullah bin Rawaha was also present. When a cloud of dust raised by the donkey reached that gathering, 'Abdullah bin Ubai covered his nose with his garment and then said, "Do not cover us with dust." Then Allah's Apostle greeted them and stopped and dismounted and invited them to Allah (i.e. to embrace Islam) and recited to them the Holy Qur'an. On that, 'Abdullah bin Ubai bin Saluil said, "O man ! There is nothing better than that what you say. If it is the truth, then do not trouble us with it in our gatherings. Return to your mount (or residence) and if somebody comes to you, relate (your tales) to him." On that 'Abdullah bin Rawaha said, "Yes, O Allah's Apostle! Bring it (i.e. what you want to say) to us in our gathering, for we love that."
So the Muslims, the pagans and the Jews started abusing one another till they were on the point of fighting with one another. The Prophet kept on quietening them till they became quiet, whereupon the Prophet rode his animal (mount) and proceeded till he entered upon Sad bin Ubada. The Prophet said to Sad, "Did you not hear what 'Abu Hub-b said?" He meant 'Abdullah bin Ubai. "He said so-and-so." On that Sad bin Ubada said, "O Allah's Apostle! Excuse and forgive him, for by Him Who revealed the Book to you, Allah brought the Truth which was sent to you at the time when the people of this town (i.e. Medina) had decided unanimously to crown him and tie a turban on his head (electing him as chief). But when Allah opposed that (decision) through the Truth which Allah gave to you, he (i.e. 'Abdullah bin Ubai) was grieved with jealously. and that caused him to do what you have seen." So Allah's Apostle excused him, for the Prophet and his companions used to forgive the pagans and the people of Scripture as Allah had ordered them, and they used to put up with their mischief with patience. Allah said: "And you shall certainly hear much that will grieve you from those who received the Scripture before you and from the pagans……..'(3.186) And Allah also said:–"Many of the people of the Scripture wish if they could turn you away as disbelievers after you have believed, from selfish envy.." (2.109)
So the Prophet used to stick to the principle of forgiveness for them as long as Allah ordered him to do so till Allah permitted fighting them. So when Allah's Apostle fought the battle of Badr and Allah killed the nobles of Quraish infidels through him, Ibn Ubai bin Salul and the pagans and idolaters who were with him, said, "This matter (i.e. Islam) has appeared (i.e. became victorious)." So they gave the pledge of allegiance (for embracing Islam) to Allah's Apostle and became Muslims.