صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ تفاسیر کا بیان ۔ حدیث 1731

اللہ تعالیٰ کا قول کہ کہہ دیجئے اے اہل کتاب آؤ ایک کلمہ کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ اللہ کے سوائے کسی کی بندگی نہ کریں گے ۔

راوی: ابراہیم بن موسیٰ , ہشام , معمر , عبداللہ بن محمد , عبدالرزاق , معمر , زہری , عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ , ابن عباد

حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَی عَنْ هِشَامٍ عَنْ مَعْمَرٍ ح و حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو سُفْيَانَ مِنْ فِيهِ إِلَی فِيَّ قَالَ انْطَلَقْتُ فِي الْمُدَّةِ الَّتِي کَانَتْ بَيْنِي وَبَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَبَيْنَا أَنَا بِالشَّأْمِ إِذْ جِيئَ بِکِتَابٍ مِنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَی هِرَقْلَ قَالَ وَکَانَ دَحْيَةُ الْکَلْبِيُّ جَائَ بِهِ فَدَفَعَهُ إِلَی عَظِيمِ بُصْرَی فَدَفَعَهُ عَظِيمُ بُصْرَی إِلَی هِرَقْلَ قَالَ فَقَالَ هِرَقْلُ هَلْ هَا هُنَا أَحَدٌ مِنْ قَوْمِ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ فَقَالُوا نَعَمْ قَالَ فَدُعِيتُ فِي نَفَرٍ مِنْ قُرَيْشٍ فَدَخَلْنَا عَلَی هِرَقْلَ فَأُجْلِسْنَا بَيْنَ يَدَيْهِ فَقَالَ أَيُّکُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا مِنْ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ فَقُلْتُ أَنَا فَأَجْلَسُونِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَأَجْلَسُوا أَصْحَابِي خَلْفِي ثُمَّ دَعَا بِتَرْجُمَانِهِ فَقَالَ قُلْ لَهُمْ إِنِّي سَائِلٌ هَذَا عَنْ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ فَإِنْ کَذَبَنِي فَکَذِّبُوهُ قَالَ أَبُو سُفْيَانَ وَايْمُ اللَّهِ لَوْلَا أَنْ يُؤْثِرُوا عَلَيَّ الْکَذِبَ لَکَذَبْتُ ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ سَلْهُ کَيْفَ حَسَبُهُ فِيکُمْ قَالَ قُلْتُ هُوَ فِينَا ذُو حَسَبٍ قَالَ فَهَلْ کَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِکٌ قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ فَهَلْ کُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْکَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ أَيَتَّبِعُهُ أَشْرَافُ النَّاسِ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ قَالَ قُلْتُ بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ قَالَ يَزِيدُونَ أَوْ يَنْقُصُونَ قَالَ قُلْتُ لَا بَلْ يَزِيدُونَ قَالَ هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ دِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ سَخْطَةً لَهُ قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ فَهَلْ قَاتَلْتُمُوهُ قَالَ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَکَيْفَ کَانَ قِتَالُکُمْ إِيَّاهُ قَالَ قُلْتُ تَکُونُ الْحَرْبُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ سِجَالًا يُصِيبُ مِنَّا وَنُصِيبُ مِنْهُ قَالَ فَهَلْ يَغْدِرُ قَالَ قُلْتُ لَا وَنَحْنُ مِنْهُ فِي هَذِهِ الْمُدَّةِ لَا نَدْرِي مَا هُوَ صَانِعٌ فِيهَا قَالَ وَاللَّهِ مَا أَمْکَنَنِي مِنْ کَلِمَةٍ أُدْخِلُ فِيهَا شَيْئًا غَيْرَ هَذِهِ قَالَ فَهَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ قُلْتُ لَا ثُمَّ قَالَ لِتُرْجُمَانِهِ قُلْ لَهُ إِنِّي سَأَلْتُکَ عَنْ حَسَبِهِ فِيکُمْ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ فِيکُمْ ذُو حَسَبٍ وَکَذَلِکَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي أَحْسَابِ قَوْمِهَا وَسَأَلْتُکَ هَلْ کَانَ فِي آبَائِهِ مَلِکٌ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا فَقُلْتُ لَوْ کَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِکٌ قُلْتُ رَجُلٌ يَطْلُبُ مُلْکَ آبَائِهِ وَسَأَلْتُکَ عَنْ أَتْبَاعِهِ أَضُعَفَاؤُهُمْ أَمْ أَشْرَافُهُمْ فَقُلْتَ بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ وَهُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ وَسَأَلْتُکَ هَلْ کُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْکَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا فَعَرَفْتُ أَنَّهُ لَمْ يَکُنْ لِيَدَعَ الْکَذِبَ عَلَی النَّاسِ ثُمَّ يَذْهَبَ فَيَکْذِبَ عَلَی اللَّهِ وَسَأَلْتُکَ هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ دِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ سَخْطَةً لَهُ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا وَکَذَلِکَ الْإِيمَانُ إِذَا خَالَطَ بَشَاشَةَ الْقُلُوبِ وَسَأَلْتُکَ هَلْ يَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ فَزَعَمْتَ أَنَّهُمْ يُزِيدُونَ وَکَذَلِکَ الْإِيمَانُ حَتَّی يَتِمَّ وَسَأَلْتُکَ هَلْ قَاتَلْتُمُوهُ فَزَعَمْتَ أَنَّکُمْ قَاتَلْتُمُوهُ فَتَکُونُ الْحَرْبُ بَيْنَکُمْ وَبَيْنَهُ سِجَالًا يَنَالُ مِنْکُمْ وَتَنَالُونَ مِنْهُ وَکَذَلِکَ الرُّسُلُ تُبْتَلَی ثُمَّ تَکُونُ لَهُمْ الْعَاقِبَةُ وَسَأَلْتُکَ هَلْ يَغْدِرُ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ لَا يَغْدِرُ وَکَذَلِکَ الرُّسُلُ لَا تَغْدِرُ وَسَأَلْتُکَ هَلْ قَالَ أَحَدٌ هَذَا الْقَوْلَ قَبْلَهُ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا فَقُلْتُ لَوْ کَانَ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ قُلْتُ رَجُلٌ ائْتَمَّ بِقَوْلٍ قِيلَ قَبْلَهُ قَالَ ثُمَّ قَالَ بِمَ يَأْمُرُکُمْ قَالَ قُلْتُ يَأْمُرُنَا بِالصَّلَاةِ وَالزَّکَاةِ وَالصِّلَةِ وَالْعَفَافِ قَالَ إِنْ يَکُ مَا تَقُولُ فِيهِ حَقًّا فَإِنَّهُ نَبِيٌّ وَقَدْ کُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ وَلَمْ أَکُ أَظُنُّهُ مِنْکُمْ وَلَوْ أَنِّي أَعْلَمُ أَنِّي أَخْلُصُ إِلَيْهِ لَأَحْبَبْتُ لِقَائَهُ وَلَوْ کُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمَيْهِ وَلَيَبْلُغَنَّ مُلْکُهُ مَا تَحْتَ قَدَمَيَّ قَالَ ثُمَّ دَعَا بِکِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَرَأَهُ فَإِذَا فِيهِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ إِلَی هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ سَلَامٌ عَلَی مَنْ اتَّبَعَ الْهُدَی أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أَدْعُوکَ بِدِعَايَةِ الْإِسْلَامِ أَسْلِمْ تَسْلَمْ وَأَسْلِمْ يُؤْتِکَ اللَّهُ أَجْرَکَ مَرَّتَيْنِ فَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَإِنَّ عَلَيْکَ إِثْمَ الْأَرِيسِيِّينَ وَ يَا أَهْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْا إِلَی کَلِمَةٍ سَوَائٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَکُمْ أَنْ لَا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ إِلَی قَوْلِهِ اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قِرَائَةِ الْکِتَابِ ارْتَفَعَتْ الْأَصْوَاتُ عِنْدَهُ وَکَثُرَ اللَّغَطُ وَأُمِرَ بِنَا فَأُخْرِجْنَا قَالَ فَقُلْتُ لِأَصْحَابِي حِينَ خَرَجْنَا لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي کَبْشَةَ إِنَّهُ لَيَخَافُهُ مَلِکُ بَنِي الْأَصْفَرِ فَمَا زِلْتُ مُوقِنًا بِأَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ سَيَظْهَرُ حَتَّی أَدْخَلَ اللَّهُ عَلَيَّ الْإِسْلَامَ قَالَ الزُّهْرِيُّ فَدَعَا هِرَقْلُ عُظَمَائَ الرُّومِ فَجَمَعَهُمْ فِي دَارٍ لَهُ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الرُّومِ هَلْ لَکُمْ فِي الْفَلَاحِ وَالرَّشَدِ آخِرَ الْأَبَدِ وَأَنْ يَثْبُتَ لَکُمْ مُلْکُکُمْ قَالَ فَحَاصُوا حَيْصَةَ حُمُرِ الْوَحْشِ إِلَی الْأَبْوَابِ فَوَجَدُوهَا قَدْ غُلِّقَتْ فَقَالَ عَلَيَّ بِهِمْ فَدَعَا بِهِمْ فَقَالَ إِنِّي إِنَّمَا اخْتَبَرْتُ شِدَّتَکُمْ عَلَی دِينِکُمْ فَقَدْ رَأَيْتُ مِنْکُمْ الَّذِي أَحْبَبْتُ فَسَجَدُوا لَهُ وَرَضُوا عَنْهُ

ابراہیم بن موسی، ہشام، معمر، عبداللہ بن محمد، عبدالرزاق، معمر، زہری، عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ، حضرت ابن عباد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ ابوسفیان نے یہ حدیث میرے سامنے بیان کی کہ جب ہماری اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صلح تھی اس وقت میں ملک شام میں تھا اسی زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خط دحیہ الکلبی لے کر ہرقل کے پاس آئے تھے پہلے یہ خط دحیہ نے بصری کے سردار کو دیا اس نے ہرقل کے پاس بھیج دیا ہرقل نے خط پڑھ کر کہا کہ دیکھو یہ جس کا خط ہے اور جو نبوت کا دعویٰ بھی کرتا ہے اس کی قوم کا کوئی آدمی یہاں ہے، لوگوں نے کہا ہاں! اس کی قوم کے لوگ یہاں موجود ہیں ابوسفیان کا بیان ہے کہ میں اور میرے چند قریبی ساتھی ہرقل کے دربار میں بلائے گئے تو اس نے ہم کو اپنے سامنے بٹھایا پھر پوچھا کہ تم میں اس (پیغمبر) کا قریبی رشتہ دار کون ہے؟ میں نے کہا میں ہوں اس نے مجھے اپنے سامنے بٹھایا اور دوسرے ساتھیوں کو میرے پیچھے بٹھایا اور پھر اپنے ایک آدمی سے کہا کہ تم ابوسفیان کے ساتھیوں سے کہو کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق ابوسفیان سے کچھ دریافت کروں گا اگر یہ غلط بیانی سے کام لے تو تم اس کی تردید کردینا ابوسفیان نے بیان کیا کہ اگر مجھے اپنے ہمراہیوں کا خوف نہ ہوتا (کہ مجھے جھٹلادیں گے) تو ضرور کچھ غلط باتیں بھی کہتا آخر پر ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا کہ ابوسفیان سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حسب دریافت کرو انہوں نے پوچھا تو میں نے کہا کہ وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم میں سب سے زیادہ عالی حسب ہیں، پھر اس نے دریافت کیا کہ کیا اس کے آباؤ اجداد میں کوئی بادشاہ بھی ہوا ہے؟ تو میں نے جواب دیا نہیں پھر اس نے دریافت کیا کیا تم نے دعویٰ نبوت سے پہلے کبھی ان کو جھوٹ بولتے سنا ہے؟ میں نے کہا نہیں، پھر اس نے پوچھا کہ اس کی اطاعت میں امیر لوگ آتے ہیں یا غریب؟ میں نے جواب دیا غریب، پھر اس نے دریافت کیا کہ ان کے ماننے والے زیادہ ہو رہے ہیں یا کم؟ میں نے جواب دیا کہ بڑھتے جا رہے ہیں، پھر اس نے پوچھا کہ اس کے ماننے والوں میں سے کبھی کوئی اپنے مذہب سے پھر بھی جاتا ہے؟ میں نے جواب دیا نہیں، پھر اس نے پوچھا کیا تم نے اس سے کبھی جنگ بھی کی ہے اور اس کی کیا صورت رہی ہے؟ میں نے جواب دیا کہ کبھی وہ غالب ہوئے اور کبھی ہم، پھر اس نے پوچھا کہ کیا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی وعدہ خلافی کی ہے؟ میں نے جواب دیا نہیں، مگر آج کل ہمارا اور ان کا ایک معاہدہ ہوا ہے معلوم نہیں اس کی کیا صورت ہوتی ہے، ابوسفیان نے بیان کیا کہ مجھ کو سوائے اس آخری بات کے کچھ زیادہ بڑھانے کی گنجائش نہیں ملی پھر اس نے پوچھا کیا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے بھی کبھی کسی نے ان کے خاندان سے اس طرح کا دعویٰ کیا ہے؟ میں نے جواب دیا نہیں، اس کے بعد ہرقل نے کہا اے ترجمان! تو ابوسفیان سے کہہ دے کہ تم سے ان کا حسب پوچھا گیا تو تم نے کہا کہ وہ عالی حسب ہے اور پیغمبر ہمیشہ عالی حسب ہوتے ہیں، پھر پوچھا گیا کہ ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ ہوا ہے تم نے کہا نہیں ہرقل کا بیان ہے کہ اس سوال کے وقت میں نے سوچا تھا کہ اگر سفیان نے کہا کہ کوئی بادشاہ ہوا ہے تو میں کہہ دوں گا کہ دعویٰ نبوت غلط ہے اپنے ملک کو حاصل کرنا چاہتے ہیں، میں نے ان کے ماننے والوں کے متعلق پوچھا کہ وہ امیر ہیں یا غریب تو تم نے کہا غریب اور پیغمبروں کے ماننے والے اکثر غریب ہی ہوتے ہیں، اور میں نے پوچھا کہ تم نے اس کو کبھی جھوٹ بولتے سنا ہے تو تم نے کہا نہیں اس لئے میں جان گیا کہ بیشک جو لوگوں پر جھوٹ نہیں بولتا تو اللہ تعالیٰ پر وہ کیسے جھوٹ بولے گا، اور میں نے تجھ سے سوال کیا کہ اس کے دین سے کوئی بد ظن ہو کر پھر بھی گیا ہے تو تم نے کہا نہیں لہذا ایمان کی علامت یہی ہے کہ جب وہ دل میں بیٹھ جاتا ہے تو پھر نکلتا نہیں ہے، پھر میں نے پوچھا کہ اس کے ماننے والے بڑھ رہے ہیں یا گھٹ رہے ہیں تو تم نے کہا کہ بڑھ رہے ہیں اور ایمان کی یہی خاصیت ہے کہ وہ بڑھتا ہی رہتا ہے، پھر میں نے پوچھا کہ کیا تم نے ان سے کبھی جنگ بھی کی ہے تو تم نے کہا ہاں! اور اس میں کبھی وہ کبھی ہم غالب رہے ہیں اور رسولوں کی یہی حالت ہوا کرتی ہے اور آخر وہی فتح پاتے ہیں، پھر میں نے پوچھا کہ وہ وعدہ خلافی کرتے ہیں یا نہیں تو تم نے کہا کہ نہیں اور رسول وعدہ خلافی کبھی نہیں کرتے، پھر میں نے تم سے پوچھا کہ اس سے پہلے بھی کبھی کسی نے نبوت کا دعوی کیا ہے تو تم نے کہا نہیں ہرقل کا بیان ہے کہ میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر کسی نے دعویٰ کیا ہوتا تو میں کہہ دیتا کہ یہ نبی نہیں ہے بلکہ اپنے پہلے والے کی پیروی کر رہا ہے، پھر تم سے میں نے پوچھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم کو کس بات کا حکم دیتے ہیں تو تم نے کہا کہ وہ نماز، زکوۃ، صلہ رحمی اور پرہیز گاری کا حکم دیتے ہیں اس کے بعد ہرقل نے کہا کہ اگر تو اپنے بیان میں سچا ہے تو بیشک وہ سچے نبی ہیں اور میں جانتا تھا کہ وہ پیدا ہونے والے ہیں مگر یہ معلوم نہ تھا کہ وہ تم میں پیدا ہوں گے اگر یہ معلوم ہوتا تو میں ان سے ضرور ملاقات کرتا اور ان کے دیدار سے مستفیض ہوتا اور ان کے پاؤں دھو کر پیتا اور ان کی حکومت ضرور میرے ان قدموں تک پہنچے گی اس کے بعد ہرقل نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خط کو دوبارہ پڑھا مضمون یہ تھا بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ خط محمد رسول اللہ کی طرف سے ہے روم کے بادشاہ ہرقل کو معلوم ہونا چاہئے کہ جو دین حق کی پیروی کرے گا اس پر سلام، میں تم کو کلمہ اسلام کی طرف بلاتا ہوں اگر تو نے اسلام قبول کرلیا تو سلامت رہے گا اور دوگنا ثواب تم کو اللہ تعالیٰ عطا فرمائے گا اور اگر تم نے اسلام قبول نہ کیا تو تمام رعایا کے اسلام نہ لانے کا گناہ بھی تیرے ہی سر رہے گا، اے اہل کتاب! جو بات ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے اس کی طرف آؤ اور وہ بات یہ ہے کہ ہم تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں آخر آیت تک ابوسفیان نے کہا کہ ہرقل جب خط سے فارغ ہوا تو دربار میں عجیب ہلچل مچ گئی اور پھر ہم کو باہر کردیا گیا میں نے باہر نکلتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابن ابی کبشہ یعنی رسول اللہ کے کام میں بڑی مضبوطی پیدا ہوگئی ہے اور اب اس سے بادشاہ بھی ڈرنے لگے ہیں میں تو کفر کی حالت میں یقین رکھتا تھا کہ آپ کو ضرور غلبہ ہوگا زہری کہتے ہیں کہ اس کے بعد ہرقل نے تمام رؤسا کو اپنے پاس بلایا اور ان سے کہا کہ اے اہل روم! کیا تم چاہتے ہو کہ ہمیشہ سلامت رہو اور تمہارے ملک تمہارے ہاتھ میں رہیں تو ہدایت اور ہمیشہ کی سلامتی کی طرف آؤ راوی کا بیان ہے کہ لوگ یہ بات سن کر سخت ناراض ہو کر دروازوں کی طرف بھاگے مگر دروازے بند پائے، ہرقل نے کہا بھاگو نہیں میرے قریب آؤ سب آ گئے تو ہرقل نے کہا میں تم لوگوں کا امتحان لے رہا تھا میں خوش ہوں کہ تم اپنے دین پر قائم اور ثابت ہو اس کے بعد خوش ہو گئے اور ہرقل کو سجدہ کرکے واپس چلے گئے۔

Narrated Ibn Abbas:
Abu Sufyan narrated to me personally, saying, "I set out during the Truce that had been concluded between me and Allah's Apostle. While I was in Sham, a letter sent by the Prophet was brought to Heraclius. Dihya Al-Kalbi had brought and given it to the governor of Busra, and the latter forwarded it to Heraclius. Heraclius said, 'Is there anyone from the people of this man who claims to be a prophet?' The people replied, 'Yes.' So I along with some of Quraishi men were called and we entered upon Heraclius, and we were seated in front of him. Then he said, 'Who amongst you is the nearest relative to the man who claims to be a prophet?' So they made me sit in front of him and made my companions sit behind me. Then he called upon his translator and said (to him). 'Tell them ( i.e. Abu Sufyan's companions) that I am going to ask him (i.e. Abu Sufyan) regarding that man who claims to be a prophet. So, if he tell me a lie, they should contradict him (instantly).' By Allah, had I not been afraid that my companions would consider me a liar, I would have told lies. Heraclius then said to his translator, 'Ask him: What is his (i.e. the Prophet's) family status amongst you? I said, 'He belongs to a noble family amongst us." Heraclius said, 'Was any of his ancestors a king?' I said, 'No.' He said, 'Did you ever accuse him of telling lies before his saying what he has said?' I said, 'No.' He said, 'Do the nobles follow him or the poor people?' I said, 'It is the poor who followed him.' He said, 'Is the number of his follower increasing or decreasing?' I said, 'The are increasing.' He said, 'Does anyone renounce his religion (i.e. Islam) after embracing it, being displeased with it?' I said, 'No.' He said, 'Did you fight with him?' I replied, 'Yes.' He said, 'How was your fighting with him?' I said, 'The fighting between us was undecided and victory was shared by him and us by turns. He inflicts casualties upon us and we inflict casualties upon him.' He said, 'Did he ever betray?' I said, 'No, but now we are away from him in this truce and we do not know what he will do in it" Abu Sufyan added, "By Allah, I was not able to insert in my speech a word (against him) except that. Heraclius said, 'Did anybody else (amongst you) ever claimed the same (i.e. Islam) before him? I said, 'No.' Then Heraclius told his translator to tell me (i.e. Abu Sufyan), 'I asked you about his family status amongst you, and you told me that he comes from a noble family amongst you Verily, all Apostles come from the noblest family among their people. Then I asked you whether any of his ancestors was a king, and you denied that. Thereupon I thought that had one of his fore-fathers been a king, I would have said that he (i.e. Muhammad) was seeking to rule the kingdom of his fore-fathers. Then I asked you regarding his followers, whether they were the noble or the poor among the people, and you said that they were only the poor (who follow him). In fact, such are the followers of the Apostles. Then I asked you whether you have ever accused him of telling lies before saying what he said, and your reply was in the negative. Therefore, I took for granted that a man who did not tell a lie about others, could ever tell a lie about Allah. Then I asked you whether anyone of his followers had renounced his religion (i.e. Islam) after embracing it, being displeased with it, and you denied that. And such is Faith when it mixes with the cheerfulness of the hearts. Then I asked you whether his followers were increasing or decreasing You claimed that they were increasing. That is the way of true faith till it is complete. Then I asked you whether you had ever fought with him, and you claimed that you had fought with him and the battle between you and him was undecided and the victory was shared by you and him in turns; he inflicted casual ties upon you and you inflicted casualties upon them. Such is the case with the Apostles; they are out to test and the final victory is for them. Then I asked you whether he had ever betrayed; you claimed that he had never betrayed. I need, Apostles never betray. Then I asked you whether anyone had said this statement before him; and you denied that. Thereupon I thought if somebody had said that statement before him, then I would have said that he was but a man copying some sayings said before him." Abu Safyan said, "Heraclius then asked me, 'What does he order you to do?' I said, 'He orders us (to offer) prayers and (to pay) Zakat and to keep good relationship with the Kith and kin and to be chaste.' Then Heraclius said, 'If whatever you have said, is true, he is really a prophet, and I knew that he ( i.e. the Prophet ) was going to appear, but I never thought that he would be from amongst you. If I were certain that I can reach him, I would like to meet him and if I were with him, I would wash his feet; and his kingdom will expand (surely to what is under my feet.' Then Heraclius asked for the letter of Allah's Apostle and read it wherein was written:
"In the Name of Allah, the Most Beneficent, the Most Merciful. This letter is) from Muhammad, Apostle of Allah, to Heraclius, the sovereign of Byzantine…….. Peace be upon him who follows the Right Path. Now then, I call you to embrace Islam. Embrace Islam and you will be saved (from Allah's Punishment); embrace Islam, and Allah will give you a double reward, but if you reject this, you will be responsible for the sins of all the people of your kingdom (Allah's Statement):–"O the people of the Scripture (Jews and Christians)! Come to a word common to you and us that we worship None but Allah….bear witness that we are Muslims.' (3.64)
When he finished reading the letter, voices grew louder near him and there was a great hue and cry, and we were ordered to go out." Abu Sufyan added, "While coming out, I said to my companions, 'The situation of Ibn Abu Kabsha (i.e. Muhammad) has become strong; even the king of Banu Al-Asfar is afraid of him.' So I continued to believe that Allah's Apostle would be victorious, till Allah made me embrace Islam." Az-Zuhri said, "Heraclius then invited all the chiefs of the Byzantines and had them assembled in his house and said, 'O group of Byzantines! Do you wish to have a permanent success and guidance and that your kingdom should remain with you?' (Immediately after hearing that), they rushed towards the gate like onagers, but they found them closed. Heraclius then said, 'Bring them back to me.' So he called them and said, 'I just wanted to test the strength of your adherence to your religion. Now I have observed of you that which I like.' Then the people fell in prostration before him and became pleased with him." (See Hadith No. 6,Vol 1)

یہ حدیث شیئر کریں