صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ تفاسیر کا بیان ۔ حدیث 1725

باب (نیو انٹری)

راوی:

سُورَةُ آلِ عِمْرَانَ تُقَاةٌ وَتَقِيَّةٌ وَاحِدَةٌ صِرٌّ بَرْدٌ شَفَا حُفْرَةٍ مِثْلُ شَفَا الرَّكِيَّةِ وَهْوَ حَرْفُهَا تُبَوِّئُ تَتَّخِذُ مُعَسْكَرًا الْمُسَوَّمُ الَّذِي لَهُ سِيمَاءٌ بِعَلَامَةٍ أَوْ بِصُوفَةٍ أَوْ بِمَا كَانَ رِبِّيُّونَ الْجَمِيعُ وَالْوَاحِدُ رِبِّيٌّ تَحُسُّونَهُمْ تَسْتَأْصِلُونَهُمْ قَتْلًا غُزًّا وَاحِدُهَا غَازٍ سَنَكْتُبُ سَنَحْفَظُ نُزُلًا ثَوَابًا وَيَجُوزُ وَمُنْزَلٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ كَقَوْلِكَ أَنْزَلْتُهُ وَقَالَ مُجَاهِدٌ وَالْخَيْلُ الْمُسَوَّمَةُ الْمُطَهَّمَةُ الْحِسَانُ قَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى الرَّاعِيَةُ الْمُسَوَّمَةُ وَقَالَ ابْنُ جُبَيْرٍ وَحَصُورًا لَا يَأْتِي النِّسَاءَ وَقَالَ عِكْرِمَةُ مِنْ فَوْرِهِمْ مِنْ غَضَبِهِمْ يَوْمَ بَدْرٍ وَقَالَ مُجَاهِدٌ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنْ الْمَيِّتِ مِنْ النُّطْفَةِ تَخْرُجُ مَيِّتَةً وَيُخْرِجُ مِنْهَا الْحَيَّ الْإِبْكَارُ أَوَّلُ الْفَجْرِ وَالْعَشِيُّ مَيْلُ الشَّمْسِ أُرَاهُ إِلَى أَنْ تَغْرُبَ

سورة آل عمران ! بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
”تقاة “اور تقیتہ “ دونوں کے معنی ڈر اور بچاؤ کے ہیں ”صر “ سردی ”شفا حفرة “ گڑھا یا کنویں کی من ”تبوی“ تم محاذ پر فوج کو جمع کرتے تھے ”ربیون “ ربی کی جمع ہے ‘ یعنی خدا پرست لوگ ”تحسونھم “ تم قتل کر کے ان کو جڑ سے ختم کر رہے تھے ” غزا“ جمع ہے غاز کی ‘ جہاد کرنے والا ”سنکتب “ عنقریب حفظ کریں گے ”نزلا“ ثواب اور ”منزل “ کے بھی یہی معنی ہیں ‘ مجاہد کہتے ہیں کہ ”الخیل المسومة“ سے مراد فربہ اور تندرست گھوڑے ہیں ‘ ابن جبیر کہتے ہیں کہ ”حصور “ کے معنی ہیں وہ شخص جو عورت سے مباشرت پر قادر نہ ہو ‘ عکرمہ کہتے ہیں ”فور “ کے معنی غضب اور جوش کے ہیں جو انہوں نے بدر کے دن دکھایا ‘ مجاہد کا بیان ہے کہ ”یخرج الحی من ا لمیت “ کا مطلب یہ ہے کہ پہلے بے جان ہوتا ہے پھر اسے جان دار بنا کر پیدا کرتا ہے ‘ ”ابکار “ کے معنی ہیں پہلا پہر اور ”عشی کے معنی اس وقت کے ہیں جو سورج کے ڈھلنے سے شروع ہو کر غروب آفتاب تک ہوتا ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں