اللہ تعالیٰ کا قول کہ جس جگہ سے لوگ واپس لوٹیں اسی جگہ سے تم بھی لوٹ جاؤ۔ کی تفسیر
راوی: علی بن عبداللہ , محمد بن حازم , ہشام , عروہ , عائشہ
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَازِمٍ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا کَانَتْ قُرَيْشٌ وَمَنْ دَانَ دِينَهَا يَقِفُونَ بِالْمُزْدَلِفَةِ وَکَانُوا يُسَمَّوْنَ الْحُمْسَ وَکَانَ سَائِرُ الْعَرَبِ يَقِفُونَ بِعَرَفَاتٍ فَلَمَّا جَائَ الْإِسْلَامُ أَمَرَ اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَأْتِيَ عَرَفَاتٍ ثُمَّ يَقِفَ بِهَا ثُمَّ يُفِيضَ مِنْهَا فَذَلِکَ قَوْلُهُ تَعَالَی ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ
علی بن عبد اللہ، محمد بن حازم، ہشام، عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ قریش اور ان کے ہم خیال لوگ مزدلفہ میں وقوف کیا کرتے تھے اور انہیں خمس کہا جاتا تھا اور عرب کے دوسرے قبائل عرفات میں قیام کیا کرتے تھے۔ اسلام کی آمد کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی الله علیه وسلم کو حکم دیا که سب کو عرفات پہنچ کر وقوف کرنا چاهئے اور واپسی پر مزدلفه میں ٹھہریں، چنانچه اس آیت ( ثُثُمَّ اَفِيْضُوْا مِنْ حَيْثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللّٰهَ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ) 2۔ البقرۃ : 199) کو اسی مقصد کے لئے نازل کیا گیا تھا۔
Narrated 'Aisha:
The Quraish people and those who embraced their religion, used to stay at Muzdalifa and used to call themselves Al-Hums, while the rest of the Arabs used to stay at 'Arafat. When Islam came, Allah ordered His Prophet to go to 'Arafat and stay at it, and then pass on from there, and that is what is meant by the Statement of Allah:–"Then depart from the place whence all the people depart……" (2.199)