صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ تفاسیر کا بیان ۔ حدیث 1694

اللہ تعالیٰ کا قول کہ اور قتل کرو تم ان کو یہاں تک کہ فتنہ و فساد کا خاتمہ ہو جائے اور دین خالص اللہ کا غالب ہو اور زیادتی مت کرو مگر ظالموں پر کی تفسیر۔

راوی: محمد بن بشار , عبدالوہاب , عبیداللہ , نافع , ابن عمر

حَدَّثَنَي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَتَاهُ رَجُلَانِ فِي فِتْنَةِ ابْنِ الزُّبَيْرِ فَقَالَا إِنَّ النَّاسَ صَنَعُوا وَأَنْتَ ابْنُ عُمَرَ وَصَاحِبُ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا يَمْنَعُکَ أَنْ تَخْرُجَ فَقَالَ يَمْنَعُنِي أَنَّ اللَّهَ حَرَّمَ دَمَ أَخِي فَقَالَا أَلَمْ يَقُلْ اللَّهُ وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّی لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ فَقَالَ قَاتَلْنَا حَتَّی لَمْ تَکُنْ فِتْنَةٌ وَکَانَ الدِّينُ لِلَّهِ وَأَنْتُمْ تُرِيدُونَ أَنْ تُقَاتِلُوا حَتَّی تَکُونَ فِتْنَةٌ وَيَکُونَ الدِّينُ لِغَيْرِ اللَّهِ وَزَادَ عُثْمَانُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ ابْنِ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي فُلَانٌ وَحَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ عَنْ بَکْرِ بْنِ عَمْرٍو الْمَعَافِرِيِّ أَنَّ بُکَيْرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَهُ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ رَجُلًا أَتَی ابْنَ عُمَرَ فَقَالَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ مَا حَمَلَکَ عَلَی أَنْ تَحُجَّ عَامًا وَتَعْتَمِرَ عَامًا وَتَتْرُکَ الْجِهَادَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَقَدْ عَلِمْتَ مَا رَغَّبَ اللَّهُ فِيهِ قَالَ يَا ابْنَ أَخِي بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَی خَمْسٍ إِيمَانٍ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالصَّلَاةِ الْخَمْسِ وَصِيَامِ رَمَضَانَ وَأَدَائِ الزَّکَاةِ وَحَجِّ الْبَيْتِ قَالَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَلَا تَسْمَعُ مَا ذَکَرَ اللَّهُ فِي کِتَابِهِ وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَی الْأُخْرَی فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّی تَفِيئَ إِلَی أَمْرِ اللَّهِ قَاتِلُوهُمْ حَتَّی لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ قَالَ فَعَلْنَا عَلَی عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَکَانَ الْإِسْلَامُ قَلِيلًا فَکَانَ الرَّجُلُ يُفْتَنُ فِي دِينِهِ إِمَّا قَتَلُوهُ وَإِمَّا يُعَذِّبُونَهُ حَتَّی کَثُرَ الْإِسْلَامُ فَلَمْ تَکُنْ فِتْنَةٌ قَالَ فَمَا قَوْلُکَ فِي عَلِيٍّ وَعُثْمَانَ قَالَ أَمَّا عُثْمَانُ فَکَأَنَّ اللَّهَ عَفَا عَنْهُ وَأَمَّا أَنْتُمْ فَکَرِهْتُمْ أَنْ تَعْفُوا عَنْهُ وَأَمَّا عَلِيٌّ فَابْنُ عَمِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَخَتَنُهُ وَأَشَارَ بِيَدِهِ فَقَالَ هَذَا بَيْتُهُ حَيْثُ تَرَوْنَ

محمد بن بشار، عبدالوہاب، عبیداللہ، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ابن زبیر کے فتنہ کے زمانہ میں دو آدمی میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ رہے ہیں کہ لوگوں میں کیسا فتنہ و فساد برپا ہے حالانکہ آپ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے اور صحابی رسول اکرم ہیں آپ اس وقت کیوں نہیں اٹھتے اور اس فتنہ و فساد کو کیوں نہیں روکتے؟ میں نے کہا کہ میں اس لئے خاموش ہوں کہ اللہ نے مسلمان کا مسلمان کو خون کرنے سے منع فرمایا ہے، وہ کہنے لگے کیا اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ ان سے لڑو، یہاں تک کہ فتنہ ختم ہوجائے میں نے کہا کہ یہ کام ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں کر چکے اور یہاں تک کیا کہ شرک و کفر کا فتنہ مٹ گیا اور خالص اللہ کا دین رہ گیا۔ اب تم چاہتے ہو کہ لڑ کر فتنہ بڑھ جائے، عثمان بن صالح کہتے ہیں کہ عبداللہ بن وہب نے اس حدیث کو اس طرح بیان کیا ہے عبداللہ بن لہیعہ، حیوۃ بن شریح، بکر بن عمرو، معافری، بکیر بن عبد اللہ، نافع سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے ابا عبدالرحمن! یہ آپ کو کیا ہوا کہ ایک سال حج کرتے ہو، ایک سال عمرہ کرتے ہو اور جہاد فی سبیل اللہ کو ترک کر رکھا ہے، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاد کی بڑی فضیلت بیان کی ہے اور جہاد کرنے کی رغبت دلائی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے میرے بھائی! اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے اول تو حید و رسالت کا اقرار، دوم نماز پنجگانہ، سوم رمضان کے روزے ، چہارم زکوۃ کا ادا کرنا، پنجم حج ، اس کے بعد اس آدمی نے کہا کہ کیا تم نے اللہ کا یہ حکم نہیں سنا کہ اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑنے لگیں تو ان میں صلح کرادو۔ اور اگر کوئی گروہ نہ مانے اور دوسرے پر زیادتی کرے تو پھر اس سے اس وقت تک لڑتے رہو جب تک کہ وہ اللہ کا حکم ماننے لگے اور ان سے لڑو جب تک فتنہ ختم نہ ہوجائے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ ہم زمانہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ کام کر چکے ہیں حالانکہ اس وقت مسلمان بہت قلیل اور کافر بہت زیادہ تھے یہ کافر مسلمانوں کو پریشان کرتے اور ان کے دین کو خراب کیا کرتے تھے آخر مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئی، فتنہ ختم ہوگیا اس آدمی نے پھر کہا کہ اچھا یہ تو فرمایئے کہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ و عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق آپ کیا خیال رکھتے ہیں؟ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قصور کو اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا ہے، مگر تم اب بھی ان کو برا کہتے ہوا ور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور داماد ہیں ان کا گھر تم یہ سامنے دیکھ رہے ہو ان کے لئے کچھ کہنے کی گنجائش ہی نہیں ہے۔

Narrated Nafi':
During the affliction of Ibn Az-Zubair, two men came to Ibn 'Umar and said, "The people are lost, and you are the son of 'Umar, and the companion of the Prophet, so what forbids you from coming out?" He said, "What forbids me is that Allah has prohibited the shedding of my brother's blood." They both said, "Didn't Allah say, 'And fight then until there is no more affliction?" He said "We fought until there was no more affliction and the worship is for Allah (Alone while you want to fight until there is affliction and until the worship become for other than Allah."
Narrated Nafi (through another group of sub-narrators): A man came to Ibn 'Umar and said, "O Abu Abdur Rahman! What made you perform Hajj in one year and Umra in another year and leave the Jihad for Allah' Cause though you know how much Allah recommends it?" Ibn 'Umar replied, "O son of my brother! Islam is founded on five principles, i.e. believe in Allah and His Apostle, the five compulsory prayers, the fasting of the month of Ramadan, the payment of Zakat, and the Hajj to the House (of Allah)." The man said, "O Abu Abdur Rahman! Won't you listen to why Allah has mentioned in His Book: 'If two groups of believers fight each other, then make peace between them, but if one of then transgresses beyond bounds against the other, then you all fight against the one that transgresses. (49.9) and:–"And fight them till there is no more affliction (i.e. no more worshiping of others along with Allah)." Ibn 'Umar said, "We did it, during the lifetime of Allah's Apostle when Islam had only a few followers. A man would be put to trial because of his religion; he would either be killed or tortured. But when the Muslims increased, there was no more afflictions or oppressions." The man said, "What is your opinion about 'Uthman and 'Ali?" Ibn 'Umar said, "As for 'Uthman, it seems that Allah has forgiven him, but you people dislike that he should be forgiven. And as for 'Ali, he is the cousin of Allah's Apostle and his son-in-law." Then he pointed with his hand and said, "That is his house which you see."

یہ حدیث شیئر کریں