فرمان الٰہی (یاد کرو) حنین کے دن کو جب تم اپنی کثرت پر پھول گئے تھے تو اس نے تمہیں کچھ فائدہ نہ دیا اور زمین باوجود اپنی فراخی کے تم پر تنگ ہوگئی پھر تم نے پشت پھیر لی پھر اللہ تعالیٰ نے تمہاری تسکین (کی صورت) نازل فرمائی۔ غفور رحیم تک کا بیان
راوی: سعید بن عقیر , لیث , عقیل , ابن شہاب (دوسری سند) اسحاق , یعقوب بن ابراہیم , ابن شہاب کے بھتیجے محمد بن شہاب عروہ بن زبیر مردان اور مسور بن مخرمہ
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ح و حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ شِهَابٍ وَزَعَمَ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ مَرْوَانَ وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَاهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ حِينَ جَائَهُ وَفْدُ هَوَازِنَ مُسْلِمِينَ فَسَأَلُوهُ أَنْ يَرُدَّ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَسَبْيَهُمْ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعِي مَنْ تَرَوْنَ وَأَحَبُّ الْحَدِيثِ إِلَيَّ أَصْدَقُهُ فَاخْتَارُوا إِحْدَی الطَّائِفَتَيْنِ إِمَّا السَّبْيَ وَإِمَّا الْمَالَ وَقَدْ کُنْتُ اسْتَأْنَيْتُ بِکُمْ وَکَانَ أَنْظَرَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِضْعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً حِينَ قَفَلَ مِنْ الطَّائِفِ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ رَادٍّ إِلَيْهِمْ إِلَّا إِحْدَی الطَّائِفَتَيْنِ قَالُوا فَإِنَّا نَخْتَارُ سَبْيَنَا فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمُسْلِمِينَ فَأَثْنَی عَلَی اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ إِخْوَانَکُمْ قَدْ جَائُونَا تَائِبِينَ وَإِنِّي قَدْ رَأَيْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَيْهِمْ سَبْيَهُمْ فَمَنْ أَحَبَّ مِنْکُمْ أَنْ يُطَيِّبَ ذَلِکَ فَلْيَفْعَلْ وَمَنْ أَحَبَّ مِنْکُمْ أَنْ يَکُونَ عَلَی حَظِّهِ حَتَّی نُعْطِيَهُ إِيَّاهُ مِنْ أَوَّلِ مَا يُفِيئُ اللَّهُ عَلَيْنَا فَلْيَفْعَلْ فَقَالَ النَّاسُ قَدْ طَيَّبْنَا ذَلِکَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّا لَا نَدْرِي مَنْ أَذِنَ مِنْکُمْ فِي ذَلِکَ مِمَّنْ لَمْ يَأْذَنْ فَارْجِعُوا حَتَّی يَرْفَعَ إِلَيْنَا عُرَفَاؤُکُمْ أَمْرَکُمْ فَرَجَعَ النَّاسُ فَکَلَّمَهُمْ عُرَفَاؤُهُمْ ثُمَّ رَجَعُوا إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرُوهُ أَنَّهُمْ قَدْ طَيَّبُوا وَأَذِنُوا هَذَا الَّذِي بَلَغَنِي عَنْ سَبْيِ هَوَازِنَ
سعید بن عفیر، لیث، عقیل، ابن شہاب (دوسری سند) اسحاق، یعقوب بن ابراہیم، ابن شہاب کے بھتیجے محمد بن شہاب عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مردان اور مسور بن مخرمہ سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ہوازن کا وفد مسلمان ہو کر آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ان کے قیدی اور مال انہیں واپس کردیئے جائیں تو آپ نے ان سے فرمایا : میرے پاس جنہیں تم دیکھ رہے ہو وہ (میرے صحابہ) ہیں اور مجھے سب سے زیادہ سچی بات پسند ہے لہذا تم دو میں سے ایک چیز پسند کرلو یا قیدی یا مال اور میں نے تو تمہاری وجہ سے (تقسیم غنیمت میں) تاخیر بھی کی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طائف سے واپس تشریف لاتے وقت دس سے زیادہ دن تک (قوم ہوازن کا) انتظار کیا تھا جب ان پر یہ روشن ہوگیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف ایک ہی چیز واپس کریں گے تو انہوں نے کہا ہم اپنے قیدیوں کو اختیار کرتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں کو خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی شایان شان تعریف کرکے فرمایا اما بعد! تمہارے بھائی (کفر سے) توبہ کرکے ہمارے پاس آئے ہیں اور میں مناسب سمجھتا ہوں کہ ان کے قیدی انہیں واپس کردیئے جائیں لہذا تم میں سے جو شخص احسان کے طور پر چھوڑنا چاہے وہ ایسا کرے اور جو اپنے حصہ کو نہ چھوڑنا چاہے بلکہ وہ یہ چاہے کہ ہم اس کے عوض میں اس مال میں سے جو اللہ تعالیٰ اول فے میں ہمیں عطا فرمائے اسے دیں تو ایسا کرے۔ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ! ہم احسان کرنا چاہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمیں معلوم نہیں کہ تم میں سے کس نے پسند کرکے اجازت دی ہے کس نے نہیں؟ لہذا تم واپس چلے جاؤ یہاں تک کہ تمہارے سردار آکر ہمارے پاس یہ معاملہ پیش کریں لوگ واپس چلے گئے اور ان سے ان کے سرداروں نے گفتگو کی پھر وہ سردار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس واپس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ سب لوگ خوشی سے اس کی اجازت دیتے ہیں یہ وہ حدیث ہے جو مجھے ہوازن کے قیدیوں کے بارے میں معلوم ہوئی ہے۔
Narrated Marwan and Al-Miswar bin Makhrama:
When the delegate of Hawazin came to Allah's Apostle declaring their conversion to Islam and asked him to return their properties and captives, Allah's Apostle got up and said to them, "There Is involved in this matter, the people whom you see with me, and the most beloved talk to me, is the true one. So choose one of two alternatives: Either the captives or the properties. I have been waiting for you (i.e. have not distributed the booty)." Allah's Apostle had delayed the distribution of their booty over ten nights after his return from Ta'if. So when they came to know that Allah's Apostle was not going to return to them but one of the two, they said, "We prefer to have our captives." So Allah's Apostle got up amongst the Muslims, and praising Allah as He deserved, said, "To proceed! Your brothers have come to you with repentance and I see (it logical) to return their captives. So, whoever of you likes to do that as a favor then he can do it. And whoever of you likes to stick to his share till we give him from the very first booty which Allah will give us, then he can do so." The people said, "We do that (i.e. return the captives) willingly as a favor, 'O Allah's Apostle!" Allah's Apostle said, "We do not know which of you have agreed to it and which have not; so go back and let your chiefs forward us your decision." They went back and their chief's spoke to them, and they (i.e. the chiefs) returned to Allah's Apostle and informed him that all of them had agreed (to give up their captives) with pleasure, and had given their permission (i.e. that the captives be returned to their people). (The sub-narrator said, "That is what has reached me about the captives of Hawazin tribe.")