صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ غزوات کا بیان ۔ حدیث 1455

عمرہ قضاء کا بیان اسے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے ۔

راوی: عبیداللہ بن موسی , اسرائیل , ابواسحق , براء

حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَی عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ الْبَرَائِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا اعْتَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذِي الْقَعْدَةِ فَأَبَی أَهْلُ مَکَّةَ أَنْ يَدَعُوهُ يَدْخُلُ مَکَّةَ حَتَّی قَاضَاهُمْ عَلَی أَنْ يُقِيمَ بِهَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَلَمَّا کَتَبُوا الْکِتَابَ کَتَبُوا هَذَا مَا قَاضَی عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ قَالُوا لَا نُقِرُّ لَکَ بِهَذَا لَوْ نَعْلَمُ أَنَّکَ رَسُولُ اللَّهِ مَا مَنَعْنَاکَ شَيْئًا وَلَکِنْ أَنْتَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ فَقَالَ أَنَا رَسُولُ اللَّهِ وَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ثُمَّ قَالَ لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ امْحُ رَسُولَ اللَّهِ قَالَ عَلِيٌّ لَا وَاللَّهِ لَا أَمْحُوکَ أَبَدًا فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْکِتَابَ وَلَيْسَ يُحْسِنُ يَکْتُبُ فَکَتَبَ هَذَا مَا قَاضَی عَلَيْهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ لَا يُدْخِلُ مَکَّةَ السِّلَاحَ إِلَّا السَّيْفَ فِي الْقِرَابِ وَأَنْ لَا يَخْرُجَ مِنْ أَهْلِهَا بِأَحَدٍ إِنْ أَرَادَ أَنْ يَتْبَعَهُ وَأَنْ لَا يَمْنَعَ مِنْ أَصْحَابِهِ أَحَدًا إِنْ أَرَادَ أَنْ يُقِيمَ بِهَا فَلَمَّا دَخَلَهَا وَمَضَی الْأَجَلُ أَتَوْا عَلِيًّا فَقَالُوا قُلْ لِصَاحِبِکَ اخْرُجْ عَنَّا فَقَدْ مَضَی الْأَجَلُ فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبِعَتْهُ ابْنَةُ حَمْزَةَ تُنَادِي يَا عَمِّ يَا عَمِّ فَتَنَاوَلَهَا عَلِيٌّ فَأَخَذَ بِيَدِهَا وَقَالَ لِفَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام دُونَکِ ابْنَةَ عَمِّکِ حَمَلَتْهَا فَاخْتَصَمَ فِيهَا عَلِيٌّ وَزَيْدٌ وَجَعْفَرٌ قَالَ عَلِيٌّ أَنَا أَخَذْتُهَا وَهِيَ بِنْتُ عَمِّي وَقَالَ جَعْفَرٌ ابْنَةُ عَمِّي وَخَالَتُهَا تَحْتِي وَقَالَ زَيْدٌ ابْنَةُ أَخِي فَقَضَی بِهَا النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِخَالَتِهَا وَقَالَ الْخَالَةُ بِمَنْزِلَةِ الْأُمِّ وَقَالَ لِعَلِيٍّ أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْکَ وَقَالَ لِجَعْفَرٍ أَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي وَقَالَ لِزَيْدٍ أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلَانَا وَقَالَ عَلِيٌّ أَلَا تَتَزَوَّجُ بِنْتَ حَمْزَةَ قَالَ إِنَّهَا ابْنَةُ أَخِي مِنْ الرَّضَاعَةِ

عبیداللہ بن موسی، اسرائیل، ابواسحاق ، براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب ذیقعدہ میں عمرہ کا ارادہ فرمایا تو اہل مکہ نے آپ کے مکہ میں داخل ہونے سے انکار کیا، یہاں تک کہ آپ نے ان سے اس شرط پر صلح کی کہ (آئندہ سال) مکہ میں تین دن مقیم رہیں گے، جب مسلمانوں نے صلح نامہ لکھا ( تو اس میں یہ) لکھ دیا کہ یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صلح نامہ ہے تو کفار نے کہا کہ ہم تو اس کا اقرار نہیں کرتے اگر ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول سمجھتے تو آپ کو ہم بالکل نہ روکتے، لیکن آپ محمد بن عبداللہ ہیں (یہی لکھئے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کا رسول بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ لفظ رسول اللہ مٹادو، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا واللہ میں تو اسے کبھی نہیں مٹاسکتا، تو رسول اللہ نے وہ صلح نامہ لے لیا، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا نہیں جانتے تھے پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ لکھا، یہ محمد بن عبداللہ کا صلح نامہ ہے کہ آپ مکہ میں سوائے غلاف پوش تلوار کے دوسرے ہتھیار لے کر نہ آئیں گے اور اہل مکہ میں اگر کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جانا چاہے گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے نہیں لے جائیں گے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے کوئی مکہ میں رہنا چاہے گا تو آپ نہ روکیں گے (سال آئندہ) جب آپ مکہ تشریف لائے اور (تین دن کی) مدت پوری ہوگئی تو کفار نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آکر کہا کہ آپ اپنے ساتھی (آنحضرت) سے کہہ دیجئے کہ تشریف لے جائیں کیونکہ مدت پوری ہوگئی، تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ سے تشریف لے گئے، حضرت حمزہ کی صاحبزادی چچا چچا پکارتی ہوئی آپ کے پیچھے چلی تو انہیں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لے لیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر حضرت فاطمہ سے کہا کہ اپنے چچا کی صاحبزادی کو لے لو، کہ میں نے اسے لے لیا ہے (مدینہ پہنچ کر) علی، زید اور جعفر نے جھگڑا کیا، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں نے ہی (پہلے) اسے لیا ہے اور یہ میرے چچا کی صاحبزادی ہے جعفر نے کہا، یہ میرے چچا کی صاحبزادی ہے، اور اس کی خالہ میرے نکاح میں ہے زید نے کہا یہ میری بھتیجی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (حضرت جعفر کے حق میں) اس کی خالہ کی وجہ سے فیصلہ فرمایا اور فرمایا کہ خالہ ماں کے درجہ میں ہوتی ہے اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بطور تسلی فرمایا کہ تم مجھ سے اور میں تجھ سے ہوں اور حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تو میری صورت اور سیرت میں مشابہ ہے اور زید سے فرمایا تو ہمارا بھائی اور محبوب ہے، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ حمزہ کی صاحبزادی سے نکاح کیوں نہیں کرلیتے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ میری رضاعی بھتیجی ہے۔

Narrated Al-Bara:
When the Prophet went out for the 'Umra in the month of Dhal-Qa'da, the people of Mecca did not allow him to enter Mecca till he agreed to conclude a peace treaty with them by virtue of which he would stay in Mecca for three days only (in the following year). When the agreement was being written, the Muslims wrote: "This is the peace treaty, which Muhammad, Apostle of Allah has concluded."
The infidels said (to the Prophet), "We do not agree with you on this, for if we knew that you are Apostle of Allah we would not have prevented you for anything (i.e. entering Mecca, etc.), but you are Muhammad, the son of 'Abdullah." Then he said to 'Ali, "Erase (the name of) 'Apostle of Allah'." 'Ali said, "No, by Allah, I will never erase you (i.e. your name)." Then Allah's Apostle took the writing sheet…and he did not know a better writing..and he wrote or got it the following written! "This is the peace treaty which Muhammad, the son of 'Abdullah, has concluded: "Muhammad should not bring arms into Mecca except sheathed swords, and should not take with him any person of the people of Mecca even if such a person wanted to follow him, and if any of his companions wants to stay in Mecca, he should not forbid him."
(In the next year) when the Prophet entered Mecca and the allowed period of stay elapsed, the infidels came to Ali and said "Tell your companion (Muhammad) to go out, as the allowed period of his stay has finished." So the Prophet departed (from Mecca) and the daughter of Hamza followed him shouting "O Uncle, O Uncle!" Ali took her by the hand and said to Fatima, "Take the daughter of your uncle." So she made her ride (on her horse). (When they reached Medina) 'Ali, Zaid and Ja'far quarreled about her. 'Ali said, "I took her for she is the daughter of my uncle." Ja'far said, "She is the daughter of my uncle and her aunt is my wife." Zaid said, "She is the daughter of my brother." On that, the Prophet gave her to her aunt and said, "The aunt is of the same status as the mother." He then said to 'Ali, "You are from me, and I am from you," and said to Ja'far, "You resemble me in appearance and character," and said to Zaid, "You are our brother and our freed slave." 'Ali said to the Prophet 'Won't you marry the daughter of Hamza?" The Prophet said, "She is the daughter of my foster brother."

یہ حدیث شیئر کریں