صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ غزوات کا بیان ۔ حدیث 1264

قصہ قتل ابورافع عبداللہ بن ابی الحقیق بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس کا نام سلام بن ابی الحقیق ہے اور وہ خیبر میں رہتا تھا اور بعض کہتے ہیں کہ وہ اپنے قلعہ واقع حجاز میں رہتا تھا زہری کا بیان ہے کہ ابورافع کو کعب بن اشرف کے بعد قتل کیا گیا ہے (رمضان 6ھ میں)

راوی: یوسف بن موسیٰ , عبیداللہ بن موسیٰ , اسرائیل , ابواسحاق , براء بن عازب

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَی عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَی أَبِي رَافِعٍ الْيَهُودِيِّ رِجَالًا مِنْ الْأَنْصَارِ فَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَتِيکٍ وَکَانَ أَبُو رَافِعٍ يُؤْذِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيُعِينُ عَلَيْهِ وَکَانَ فِي حِصْنٍ لَهُ بِأَرْضِ الْحِجَازِ فَلَمَّا دَنَوْا مِنْهُ وَقَدْ غَرَبَتْ الشَّمْسُ وَرَاحَ النَّاسُ بِسَرْحِهِمْ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ لِأَصْحَابِهِ اجْلِسُوا مَکَانَکُمْ فَإِنِّي مُنْطَلِقٌ وَمُتَلَطِّفٌ لِلْبَوَّابِ لَعَلِّي أَنْ أَدْخُلَ فَأَقْبَلَ حَتَّی دَنَا مِنْ الْبَابِ ثُمَّ تَقَنَّعَ بِثَوْبِهِ کَأَنَّهُ يَقْضِي حَاجَةً وَقَدْ دَخَلَ النَّاسُ فَهَتَفَ بِهِ الْبَوَّابُ يَا عَبْدَ اللَّهِ إِنْ کُنْتَ تُرِيدُ أَنْ تَدْخُلَ فَادْخُلْ فَإِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُغْلِقَ الْبَابَ فَدَخَلْتُ فَکَمَنْتُ فَلَمَّا دَخَلَ النَّاسُ أَغْلَقَ الْبَابَ ثُمَّ عَلَّقَ الْأَغَالِيقَ عَلَی وَتَدٍ قَالَ فَقُمْتُ إِلَی الْأَقَالِيدِ فَأَخَذْتُهَا فَفَتَحْتُ الْبَابَ وَکَانَ أَبُو رَافِعٍ يُسْمَرُ عِنْدَهُ وَکَانَ فِي عَلَالِيَّ لَهُ فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْهُ أَهْلُ سَمَرِهِ صَعِدْتُ إِلَيْهِ فَجَعَلْتُ کُلَّمَا فَتَحْتُ بَابًا أَغْلَقْتُ عَلَيَّ مِنْ دَاخِلٍ قُلْتُ إِنْ الْقَوْمُ نَذِرُوا بِي لَمْ يَخْلُصُوا إِلَيَّ حَتَّی أَقْتُلَهُ فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِ فَإِذَا هُوَ فِي بَيْتٍ مُظْلِمٍ وَسْطَ عِيَالِهِ لَا أَدْرِي أَيْنَ هُوَ مِنْ الْبَيْتِ فَقُلْتُ يَا أَبَا رَافِعٍ قَالَ مَنْ هَذَا فَأَهْوَيْتُ نَحْوَ الصَّوْتِ فَأَضْرِبُهُ ضَرْبَةً بِالسَّيْفِ وَأَنَا دَهِشٌ فَمَا أَغْنَيْتُ شَيْئًا وَصَاحَ فَخَرَجْتُ مِنْ الْبَيْتِ فَأَمْکُثُ غَيْرَ بَعِيدٍ ثُمَّ دَخَلْتُ إِلَيْهِ فَقُلْتُ مَا هَذَا الصَّوْتُ يَا أَبَا رَافِعٍ فَقَالَ لِأُمِّکَ الْوَيْلُ إِنَّ رَجُلًا فِي الْبَيْتِ ضَرَبَنِي قَبْلُ بِالسَّيْفِ قَالَ فَأَضْرِبُهُ ضَرْبَةً أَثْخَنَتْهُ وَلَمْ أَقْتُلْهُ ثُمَّ وَضَعْتُ ظِبَةَ السَّيْفِ فِي بَطْنِهِ حَتَّی أَخَذَ فِي ظَهْرِهِ فَعَرَفْتُ أَنِّي قَتَلْتُهُ فَجَعَلْتُ أَفْتَحُ الْأَبْوَابَ بَابًا بَابًا حَتَّی انْتَهَيْتُ إِلَی دَرَجَةٍ لَهُ فَوَضَعْتُ رِجْلِي وَأَنَا أُرَی أَنِّي قَدْ انْتَهَيْتُ إِلَی الْأَرْضِ فَوَقَعْتُ فِي لَيْلَةٍ مُقْمِرَةٍ فَانْکَسَرَتْ سَاقِي فَعَصَبْتُهَا بِعِمَامَةٍ ثُمَّ انْطَلَقْتُ حَتَّی جَلَسْتُ عَلَی الْبَابِ فَقُلْتُ لَا أَخْرُجُ اللَّيْلَةَ حَتَّی أَعْلَمَ أَقَتَلْتُهُ فَلَمَّا صَاحَ الدِّيکُ قَامَ النَّاعِي عَلَی السُّورِ فَقَالَ أَنْعَی أَبَا رَافِعٍ تَاجِرَ أَهْلِ الْحِجَازِ فَانْطَلَقْتُ إِلَی أَصْحَابِي فَقُلْتُ النَّجَائَ فَقَدْ قَتَلَ اللَّهُ أَبَا رَافِعٍ فَانْتَهَيْتُ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَدَّثْتُهُ فَقَالَ ابْسُطْ رِجْلَکَ فَبَسَطْتُ رِجْلِي فَمَسَحَهَا فَکَأَنَّهَا لَمْ أَشْتَکِهَا قَطُّ

یوسف بن موسی، عبیداللہ بن موسی، اسرائیل، ابواسحاق، براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابورافع کے پاس کئی انصاریوں کو بھیجا اور عبداللہ بن عتیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سردار مقرر کیا ابورافع دشمن رسول تھا اور مخالفین رسول کی مدد کرتا تھا اس کا قلعہ حجاز میں تھا اور وہ اسی میں رہا کرتا تھا جب یہ لوگ اس کے قلعہ کے قریب پہنچے تو سورج ڈوب گیا تھا اور لوگ اپنے جانوروں کو شام ہونے کی وجہ سے واپس لا رہے تھے عبداللہ بن عتیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ساتھیوں سے کہا تم یہیں ٹھہرو میں جاتا ہوں اور دربان سے کوئی بہانہ کرکے اندر جانے کی کوشش کروں گا چنانچہ عبداللہ گئے اور دروازہ کے قریب پہنچ گئے پھر خود کو اپنے کپڑوں میں اس طرح چھپایا جیسے کوئی رفع حاجت کے لئے بیٹھتا ہے قلعہ والے اندر جا چکے تھے دربان نے عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ خیال کرکے کہ ہمارا ہی آدمی ہے آواز دی اور کہا! اے اللہ کے بندے اگر تو اندر آنا چاہتا ہے تو آ جا کیونکہ میں دروازہ بند کرنا چاہتا ہوں عبداللہ بن عتیک کہتے ہیں کہ میں یہ سن کر اندر گیا اور چھپ رہا اور دربان نے دروازہ بند کرکے چابیاں کیل میں لٹکا دیں جب دربان سو گیا تو میں نے اٹھ کر چابیاں اتارلیں اور قلعہ کا دروازہ کھول دیا تاکہ بھاگنے میں آسانی ہو ادھر ابورافع کے پاس رات کو داستان ہوتی تھی وہ اپنے بالا خانے پر بیٹھا داستان سن رہا تھا جب داستان کہنے والے تمام چلے گئے اور ابورافع سو گیا تو میں بالا خانہ پر چڑھا اور جس دروازہ میں داخل ہوتا تھا اس کو اندر سے بند کرلیتا تھا اور اس سے میری یہ غرض تھی کہ اگر لوگوں کو میری خبر ہوجائے تو ان کے پہنچنے تک میں ابورافع کا کام تمام کردوں غرض میں ابورافع تک پہنچا وہ ایک اندھیرے کمرے میں اپنے بچوں کے ساتھ سو رہا تھا میں اس کی جگہ کو اچھی طرح معلوم نہ کر سکا اور ابورافع کہہ کر پکارا اس نے کہا کون ہے؟ میں نے آواز پر بڑھ کر تلوار کا ہاتھ مارا میرا دل دھڑک رہا تھا مگر یہ وار خالی گیا اور وہ چلایا میں کوٹھڑی سے باہر آ گیا اور پھر فورا ہی اندر جا کر پوچھا کہ اے ابورافع تم کیوں چلائے؟ اس نے مجھے اپنا آدمی سمجھا اور کہا تیری ماں تجھے روئے ابھی کسی نے مجھ سے تلوار سے وار کیا ہے یہ سنتے ہی میں نے ایک ضرب اور لگائی اور زخم اگرچہ گہرا لگا لیکن مرا نہیں آخر میں نے تلوار کی دھار اس کے پیٹ پر رکھ دی اور زور سے دبائی وہ چیرتی ہوئی پیٹھ تک پہنچ گئی اب مجھے یقین ہوگیا کہ وہ ہلاک ہوگیا پھر میں واپس لوٹا اور ایک ایک دروازہ کھولتا جاتا تھا اور سیڑھیوں سے اترتا جاتا تھا میں سمجھا کہ زمین آگئی ہے چاندنی رات تھی میں گر پڑا اور پنڈلی ٹوٹ گئی میں نے اپنے عمامہ سے پنڈلی کو باندھ لیا اور قلعہ سے باہر آکر دروازہ پر بیٹھ گیا اور دل میں طے کرلیا کہ میں اس وقت تک یہاں سے نہیں جاؤں گا جب تک اس کے مرنے کا یقین نہ ہوجائے آخر صبح ہوئی مرغ نے اذان دی اور قلعہ کے اوپر دیوار پر کھڑے ہو کر ایک شخص نے کہا کہ لوگو! ابورافع حجاز کا سوداگر مر گیا میں یہ سنتے ہی اپنے ساتھیوں کی طرف چل دیا اور ان سے آکر کہا اب جلدی چلو یہاں سے اللہ نے ابورافع کو ہلاک کرا دیا اس کے بعد ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آکر خوشخبری سنائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پیر کو دیکھا اور فرمایا کہ اپنا پاؤں پھیلاؤ میں نے پھیلایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دست مبارک پھیر دیا بس ایسا معلوم ہوا کہ اس پیر کو کوئی صدمہ نہیں پہنچا۔

Narrated Al-Bara bin Azib:
Allah's Apostle sent some men from the Ansar to ((kill) Abu Rafi, the Jew, and appointed 'Abdullah bin Atik as their leader. Abu Rafi used to hurt Allah's Apostle and help his enemies against him. He lived in his castle in the land of Hijaz. When those men approached (the castle) after the sun had set and the people had brought back their livestock to their homes. Abdullah (bin Atik) said to his companions, "Sit down at your places. I am going, and I will try to play a trick on the gate-keeper so that I may enter (the castle)." So 'Abdullah proceeded towards the castle, and when he approached the gate, he covered himself with his clothes, pretending to answer the call of nature. The people had gone in, and the gate-keeper (considered 'Abdullah as one of the castle's servants) addressing him saying, "O Allah's Servant! Enter if you wish, for I want to close the gate." 'Abdullah added in his story, "So I went in (the castle) and hid myself. When the people got inside, the gate-keeper closed the gate and hung the keys on a fixed wooden peg. I got up and took the keys and opened the gate. Some people were staying late at night with Abu Rafi for a pleasant night chat in a room of his. When his companions of nightly entertainment went away, I ascended to him, and whenever I opened a door, I closed it from inside. I said to myself, 'Should these people discover my presence, they will not be able to catch me till I have killed him.' So I reached him and found him sleeping in a dark house amidst his family, I could not recognize his location in the house. So I shouted, 'O Abu Rafi!' Abu Rafi said, 'Who is it?' I proceeded towards the source of the voice and hit him with the sword, and because of my perplexity, I could not kill him. He cried loudly, and I came out of the house and waited for a while, and then went to him again and said, 'What is this voice, O Abu Rafi?' He said, 'Woe to your mother! A man in my house has hit me with a sword! I again hit him severely but I did not kill him. Then I drove the point of the sword into his belly (and pressed it through) till it touched his back, and I realized that I have killed him. I then opened the doors one by one till I reached the staircase, and thinking that I had reached the ground, I stepped out and fell down and got my leg broken in a moonlit night. I tied my leg with a turban and proceeded on till I sat at the gate, and said, 'I will not go out tonight till I know that I have killed him.' So, when (early in the morning) the cock crowed, the announcer of the casualty stood on the wall saying, 'I announce the death of Abu Rafi, the merchant of Hijaz. Thereupon I went to my companions and said, 'Let us save ourselves, for Allah has killed Abu Rafi,' So I (along with my companions proceeded and) went to the Prophet and described the whole story to him. "He said, 'Stretch out your (broken) leg. I stretched it out and he rubbed it and it became All right as if I had never had any ailment whatsoever."

یہ حدیث شیئر کریں