بدر کے مقتولین کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا۔
راوی: احمد بن عثمان شریح بن مسلمہ ابراہیم بن یوسف یوسف بن اسحق ابواسحق سبیعی
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ حَدَّثَنَا شُرَيْحُ بْنُ مَسْلَمَةَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مَيْمُونٍ أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَ عَنْ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ أَنَّهُ قَالَ کَانَ صَدِيقًا لِأُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ وَکَانَ أُمَيَّةُ إِذَا مَرَّ بِالْمَدِينَةِ نَزَلَ عَلَی سَعْدٍ وَکَانَ سَعْدٌ إِذَا مَرَّ بِمَکَّةَ نَزَلَ عَلَی أُمَيَّةَ فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ انْطَلَقَ سَعْدٌ مُعْتَمِرًا فَنَزَلَ عَلَی أُمَيَّةَ بِمَکَّةَ فَقَالَ لِأُمَيَّةَ انْظُرْ لِي سَاعَةَ خَلْوَةٍ لَعَلِّي أَنْ أَطُوفَ بِالْبَيْتِ فَخَرَجَ بِهِ قَرِيبًا مِنْ نِصْفِ النَّهَارِ فَلَقِيَهُمَا أَبُو جَهْلٍ فَقَالَ يَا أَبَا صَفْوَانَ مَنْ هَذَا مَعَکَ فَقَالَ هَذَا سَعْدٌ فَقَالَ لَهُ أَبُو جَهْلٍ أَلَا أَرَاکَ تَطُوفُ بِمَکَّةَ آمِنًا وَقَدْ أَوَيْتُمْ الصُّبَاةَ وَزَعَمْتُمْ أَنَّکُمْ تَنْصُرُونَهُمْ وَتُعِينُونَهُمْ أَمَا وَاللَّهِ لَوْلَا أَنَّکَ مَعَ أَبِي صَفْوَانَ مَا رَجَعْتَ إِلَی أَهْلِکَ سَالِمًا فَقَالَ لَهُ سَعْدٌ وَرَفَعَ صَوْتَهُ عَلَيْهِ أَمَا وَاللَّهِ لَئِنْ مَنَعْتَنِي هَذَا لَأَمْنَعَنَّکَ مَا هُوَ أَشَدُّ عَلَيْکَ مِنْهُ طَرِيقَکَ عَلَی الْمَدِينَةِ فَقَالَ لَهُ أُمَيَّةُ لَا تَرْفَعْ صَوْتَکَ يَا سَعْدُ عَلَی أَبِي الْحَکَمِ سَيِّدِ أَهْلِ الْوَادِي فَقَالَ سَعْدٌ دَعْنَا عَنْکَ يَا أُمَيَّةُ فَوَاللَّهِ لَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّهُمْ قَاتِلُوکَ قَالَ بِمَکَّةَ قَالَ لَا أَدْرِي فَفَزِعَ لِذَلِکَ أُمَيَّةُ فَزَعًا شَدِيدًا فَلَمَّا رَجَعَ أُمَيَّةُ إِلَی أَهْلِهِ قَالَ يَا أُمَّ صَفْوَانَ أَلَمْ تَرَيْ مَا قَالَ لِي سَعْدٌ قَالَتْ وَمَا قَالَ لَکَ قَالَ زَعَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا أَخْبَرَهُمْ أَنَّهُمْ قَاتِلِيَّ فَقُلْتُ لَهُ بِمَکَّةَ قَالَ لَا أَدْرِي فَقَالَ أُمَيَّةُ وَاللَّهِ لَا أَخْرُجُ مِنْ مَکَّةَ فَلَمَّا کَانَ يَوْمُ بَدْرٍ اسْتَنْفَرَ أَبُو جَهْلٍ النَّاسَ قَالَ أَدْرِکُوا عِيرَکُمْ فَکَرِهَ أُمَيَّةُ أَنْ يَخْرُجَ فَأَتَاهُ أَبُو جَهْلٍ فَقَالَ يَا أَبَا صَفْوَانَ إِنَّکَ مَتَی مَا يَرَاکَ النَّاسُ قَدْ تَخَلَّفْتَ وَأَنْتَ سَيِّدُ أَهْلِ الْوَادِي تَخَلَّفُوا مَعَکَ فَلَمْ يَزَلْ بِهِ أَبُو جَهْلٍ حَتَّی قَالَ أَمَّا إِذْ غَلَبْتَنِي فَوَاللَّهِ لَأَشْتَرِيَنَّ أَجْوَدَ بَعِيرٍ بِمَکَّةَ ثُمَّ قَالَ أُمَيَّةُ يَا أُمَّ صَفْوَانَ جَهِّزِينِي فَقَالَتْ لَهُ يَا أَبَا صَفْوَانَ وَقَدْ نَسِيتَ مَا قَالَ لَکَ أَخُوکَ الْيَثْرِبِيُّ قَالَ لَا مَا أُرِيدُ أَنْ أَجُوزَ مَعَهُمْ إِلَّا قَرِيبًا فَلَمَّا خَرَجَ أُمَيَّةُ أَخَذَ لَا يَنْزِلُ مَنْزِلًا إِلَّا عَقَلَ بَعِيرَهُ فَلَمْ يَزَلْ بِذَلِکَ حَتَّی قَتَلَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِبَدْرٍ
احمد بن عثمان شریح بن مسلمہ ابراہیم بن یوسف یوسف بن اسحاق ابواسحاق سبیعی سے روایت کرتے ہیں کہ عمرو بن میمون نے مجھ سے کہا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو میں نے کہتے ہوئے سنا کہ سعد بن معاذ اور امیہ بن خلف کے درمیان گہری دوستی تھی امیہ جب مدینہ آتا تو سعد کے مکان پر اترتا اور سعد بن معاذ جب مکہ تشریف لے جاتے تو امیہ کے یہاں قیام فرماتے ہجرت کے بعد جب رسول اکرم مکہ سے تشریف لے آئے تو سعد بن معاذ ایک مرتبہ عمرہ کے لئے مدینہ سے مکہ گئے اور حسب سابق امیہ کے یہاں مقیم ہوئے اور فرمانے لگے امیہ مجھے کوئی سکون اور تنہائی کا وقت بتانا تاکہ میں اطمینان سے کعبہ کا طواف کر سکوں چنانچہ امیہ دوپہر کے وقت سعد کو ہمراہ لے کر گھر سے چلا راستہ میں ابوجہل نے دونوں کو دیکھ کر پوچھا اے صفوان (امیہ) تمہارے ساتھ کون ہے؟ امیہ نے جواب دیا یہ سعد ہیں ابوجہل سعد کی طرف مخاطب ہو کر کہنے لگا کیسے بے خوف ہو کر مکہ میں پھرتے اور طواف کرتے ہو میں تجھے دیکھ رہا ہوں اور تم نے دین بدلنے والوں کو اپنے ملک میں اطمینان سے رہنے کا موقعہ دیا ہے اور ان کی مدد و حمایت بھی کر رہے ہو اللہ کی قسم اگر تم ابوصفوان کے ہمراہ نہ ہوتے تو اپنے گھر والوں تک سلامت نہیں لوٹ سکتے تھے حضرت سعد نے ابوجہل کو بلند آواز سے جواب دیا اللہ گواہ ہے اگر تو نے مجھے طواف سے روکا تو یاد رکھ میں تیرا وہ راستہ روک دوں گا جو اس سے بھی زیادہ تجھ پر گراں گزرے گا یعنی تو مدینہ سے شام کی طرف نہ جا سکے گا امیہ نے حضرت سعد سے کہا یہ ابوالحکم مکہ کے سردار ہیں ان سے آہستہ بات کرو سعد نے کہا اے امیہ! اب زیادہ حمایت نہ کر اللہ کی قسم میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ وہ تیرے قاتل ہیں تو ان کے ہاتھ سے مارا جائے گا امیہ نے پوچھا کیا مکہ میں مارا جاؤں گا؟ سعد نے کہا میں صرف اتنا ہی جانتا ہوں امیہ اس اطلاع سے بہت گھبرایا اور اپنی بیوی سے جا کر کہا اے ام صفوان! تجھ کو کچھ معلوم ہے سعد میرے متعلق کیا کہتے ہیں بیوی نے پوچھا کیا کہتے ہیں؟ اس نے کہا یہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم نے اپنے اصحاب کو خبر دی ہے کہ وہ مجھے قتل کردیں گے میں نے پوچھا کہاں؟ تو کہا یہ مجھے معلوم نہیں غرض امیہ نے قسم کھائی کہ اب میں مکہ سے باہر نہیں جاؤں گا۔ پھر جب جنگ بدر کا وقت آیا تو ابوجہل نے مکہ والوں سے کہا لوگو! لڑائی کے لئے نکلو اور اپنے قافلہ کو بچاؤ مگر امیہ نے نکلنے میں خطرہ محسوس کیا اور پس و پیش کی ابوجہل نے اسے مجبور کرتے ہوئے کہا امیہ! تم سردار مکہ ہو اگر لوگوں نے تم کو نکلتے نہ دیکھا تو کوئی بھی نہ نکلے گا غرض ابوجہل کے اصرار سے مجبور ہو کر امیہ نے کہا خیر جب تو نہیں مانتا تو اللہ کی قسم ایک نہایت تندرست اور تیز رفتار اونٹ ایسا خریدوں گا کہ جس کی مکہ میں کوئی نظیر نہ نکلے اس کے بعد امیہ نے بیوی سے کہا ام صفوان سفر کا سامان تیار کردو بیوی نے کہا ابوصفوان! کیا تم اپنے مدینہ والے بھائی سعد کا کہنا بھول گئے امیہ نے کہا میں بھولا نہیں ہوں، صرف تھوڑی دیر تک ان کے ساتھ جاؤں گا آخر امیہ نکلا مگر راستہ میں ہر منزل پر اپنے اونٹ کو قریب ہی باندھتا اس کی احتیاط کا یہ سلسلہ جاری رہا حتیٰ کہ بدر کے دن اسے اللہ نے قتل کیا۔
Narrated 'Abdullah bin Mas'ud:
From Sad bin Mu'adh: Sad bin Mu'adh was an intimate friend of Umaiya bin Khalaf and whenever Umaiya passed through Medina, he used to stay with Sad, and whenever Sad went to Mecca, he used to stay with Umaiya. When Allah's Apostle arrived at Medina, Sa'd went to perform 'Umra and stayed at Umaiya's home in Mecca. He said to Umaiya, "Tell me of a time when (the Mosque) is empty so that I may be able to perform Tawaf around the Ka'ba." So Umaiya went with him about midday. Abu Jahl met them and said, "O Abu Safwan! Who is this man accompanying you?" He said, "He is Sad." Abu Jahl addressed Sad saying, "I see you wandering about safely in Mecca inspite of the fact that you have given shelter to the people who have changed their religion (i.e. became Muslims) and have claimed that you will help them and support them. By Allah, if you were not in the company of Abu Safwan, you would not be able to go your family safely." Sad, raising his voice, said to him, "By Allah, if you should stop me from doing this (i.e. performing Tawaf) I would certainly prevent you from something which is more valuable for you, that is, your passage through Medina." On this, Umaiya said to him, "O Sad do not raise your voice before Abu-l-Hakam, the chief of the people of the Valley (of Mecca)." Sad said, "O Umaiya, stop that! By Allah, I have heard Allah's Apostle predicting that the Muslim will kill you." Umaiya asked, "In Mecca?" Sad said, "I do not know." Umaiya was greatly scared by that news.
When Umaiya returned to his family, he said to his wife, "O Um Safwan! Don't you know what Sad told me? "She said, "What has he told you?" He replied, "He claims that Muhammad has informed them (i.e. companions that they will kill me. I asked him, 'In Mecca?' He replied, 'I do not know." Then Umaiya added, "By Allah, I will never go out of Mecca." But when the day of (the Ghazwa of) Badr came, Abu Jahl called the people to war, saying, "Go and protect your caravan." But Umaiya disliked to go out (of Mecca). Abu Jahl came to him and said, "O Abu Safwan! If the people see you staying behind though you are the chief of the people of the Valley, then they will remain behind with you." Abu Jahl kept on urging him to go until he (i.e. Umaiya) said, "As you have forced me to change my mind, by Allah, I will buy the best camel in Mecca. Then Umaiya said (to his wife). "O Um Safwan, prepare what I need (for the journey)." She said to him, "O Abu Safwan! Have you forgotten what your Yathribi brother told you?" He said, "No, but I do not want to go with them but for a short distance." So when Umaiya went out, he used to tie his camel wherever he camped. He kept on doing that till Allah caused him to be killed at Badr.