صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ انبیاء علیہم السلام کا بیان ۔ حدیث 1068

زمانہ جاہلیت کا بیان

راوی: ابو نعمان ابوعوانہ بیان ابوالبشر قیس بن حازم

حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ بَيَانٍ أَبِي بِشْرٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ قَالَ دَخَلَ أَبُو بَکْرٍ عَلَی امْرَأَةٍ مِنْ أَحْمَسَ يُقَالُ لَهَا زَيْنَبُ فَرَآهَا لَا تَکَلَّمُ فَقَالَ مَا لَهَا لَا تَکَلَّمُ قَالُوا حَجَّتْ مُصْمِتَةً قَالَ لَهَا تَکَلَّمِي فَإِنَّ هَذَا لَا يَحِلُّ هَذَا مِنْ عَمَلِ الْجَاهِلِيَّةِ فَتَکَلَّمَتْ فَقَالَتْ مَنْ أَنْتَ قَالَ امْرُؤٌ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ قَالَتْ أَيُّ الْمُهَاجِرِينَ قَالَ مِنْ قُرَيْشٍ قَالَتْ مِنْ أَيِّ قُرَيْشٍ أَنْتَ قَالَ إِنَّکِ لَسَئُولٌ أَنَا أَبُو بَکْرٍ قَالَتْ مَا بَقَاؤُنَا عَلَی هَذَا الْأَمْرِ الصَّالِحِ الَّذِي جَائَ اللَّهُ بِهِ بَعْدَ الْجَاهِلِيَّةِ قَالَ بَقَاؤُکُمْ عَلَيْهِ مَا اسْتَقَامَتْ بِکُمْ أَئِمَّتُکُمْ قَالَتْ وَمَا الْأَئِمَّةُ قَالَ أَمَا کَانَ لِقَوْمِکِ رُئُوسٌ وَأَشْرَافٌ يَأْمُرُونَهُمْ فَيُطِيعُونَهُمْ قَالَتْ بَلَی قَالَ فَهُمْ أُولَئِکِ عَلَی النَّاسِ

ابو نعمان ابوعوانہ بیان ابوالبشر قیس بن حازم سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ قبیلہ احمس کی ایک عورت کے پاس آئے جس کا نام زینب تھا تو آپ نے اسے دیکھا کہ بات نہیں کرتی آپ نے فرمایا اسے کیا ہوگیا کہ بولتی بھی نہیں؟ لوگوں نے کہا اس نے خاموشی کے حج کی نیت کی ہے آپ نے اس سے کہا کہ بات چیت کر۔ کیونکہ یہ طریقہ جائز نہیں یہ زمانہ جاہلیت کا عمل ہے تو اس نے بات شروع کی اور کہا آپ کون ہیں؟ آپ نے فرمایا میں ایک مہاجر آدمی ہوں۔ اس نے کہا کون سے مہاجر؟ آپ نے فرمایا قریشی اس نے کہا قریش میں سے کون؟ آپ نے فرمایا تو بڑی پوچھنے والی ہے۔ میں ابوبکر ہوں اس نے کہا اس نیک کام پر جو اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کے بعد ہمارے پاس بھیجا ہم کب تک چلتے رہیں گے؟ آپ نے فرمایا جب تک تمہارے پیشوا اس پر قائم رہیں گے اس نے کہا پیشوا کیسے؟ آپ نے فرمایا کیا تمہاری قوم میں ایسے شریف و رئیس نہیں۔ جو لوگوں کو حکم دیتے ہیں تو وہ ان کی اطاعت کرتے ہیں؟ اس نے کہا کیوں نہیں۔ آپ نے فرمایا تو یہی لوگ پیشوا ہیں۔

Narrated Qais bin Abi Hazim:
Abu Bakr went to a lady from the Ahmas tribe called Zainab bint Al-Muhajir and found that she refused to speak. He asked, "Why does she not speak." The people said, "She has intended to perform Hajj without speaking." He said to her, "Speak, for it is illegal not to speak, as it is an action of the pre-islamic period of ignorance. So she spoke and said, "Who are you?" He said, "A man from the Emigrants." She asked, "Which Emigrants?" He replied, "From Quraish." She asked, "From what branch of Quraish are you?" He said, "You ask too many questions; I am Abu Bakr." She said, "How long shall we enjoy this good order (i.e. Islamic religion) which Allah has brought after the period of ignorance?" He said, "You will enjoy it as long as your Imams keep on abiding by its rules and regulations." She asked, "What are the Imams?" He said, "Were there not heads and chiefs of your nation who used to order the people and they used to obey them?" She said, "Yes." He said, "So they (i.e. the Imams) are those whom I meant."

یہ حدیث شیئر کریں