حدیث پڑھنے اور محدث کے سامنے پیش کرنے (پڑھنے) کا بیان اور حسن بصری اور سفیان ثوری اور امام مالک نے (بھی خود) پڑھ لینا کافی سمجھا ہے اور بعض محدثین نے عالم کے سامنے قرأت (کے کافی ہونے) میں ضمام بن ثعلبہ کی حدیث سے استدلال کیا ہے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ ہم نماز پڑھیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ پس وہ محدثین کہتے ہیں کہ (ضمام بن ثعلبہ کا) یہ قول نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پڑھنا ہے (اور) ضمام نے اپنی قوم کو اس کی اطلاع کی اور قوم کے لوگوں نے اس کو کافی سمجھا اور (امام) مالک نے صک سے استدلال کیا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے سنایا اور معلم کے سامنے کتاب پڑھی جاتی ہے تو حاضرین کہتے ہیں کہ ہم فلاں شخص نے سنایا اور معلم کے سامنے کتاب پڑھی جاتی ہے تو پڑھنے والا کہتا ہے کہ مجھے فلاں شخص نے پڑھایا۔
راوی: محمد بن سلام , محمد بن حسن واسطی , عوف , حسن بصری
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الْوَاسِطِيُّ عَنْ عَوْفٍ عَنْ الْحَسَنِ قَالَ لَا بَأْسَ بِالْقِرَائَةِ عَلَی الْعَالِمِ وَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَی عَنْ سُفْيَانَ قَالَ إِذَا قَرَئَ عَلَی الْمُحَدِّثِ فَلَا بَأْسَ أَنْ يَقُولَ حَدَّثَنِي قَالَ وَسَمِعْتُ أَبَا عَاصِمٍ يَقُولُ عَنْ مَالِکٍ وَسُفْيَانَ الْقِرَائَةُ عَلَی الْعَالِمِ وَقِرَائَتُهُ سَوَائٌ
محمد بن سلام، محمد بن حسن واسطی، عوف، حضرت حسن بصری سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ عالم کے سامنے پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں اور عبیداللہ بن موسیٰ نے سفیان سے روایت کیا وہ کہتے تھے کہ جب محدث کے سامنے پڑھ چکا ہو تو حدثنی کہنے میں کوئی حرج نہیں، محمد بن سلام کا بیان ہے کہ میں نے ابوعاصم سے سنا وہ مالک اور سفیان سے نقل کرتے تھے کہ عالم کے سامنے پڑھنا اور عالم کا پڑھنا دونوں برابر ہیں۔