اگر عربی غلام کا مالک ہو جائے اور اس کو ہبہ کر دے بیچ دے جماع کرے فدیہ دے اور بچوں کو قید کرے (تو کیا درست ہے) اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ اللہ ایک مثال بیان کرتا ہے ایک شخص غلام کی جو کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتا اور اس شخص کی جس کو ہم نے اپنی طرف سے عمدہ رزق دیا ہے اور وہ اس میں سے پوشیدہ طور پر اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں کیا وہ سب برابر ہوں گے سب تعریف اللہ کے لئے ہے بلکہ ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔
راوی: ابن ابی مریم لیث عقیل ابن شہاب عروہ مروان اور مسور بن مخزمہ
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ قَالَ أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ذَکَرَ عُرْوَةُ أَنَّ مَرْوَانَ وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَاهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ حِينَ جَائَهُ وَفْدُ هَوَازِنَ فَسَأَلُوهُ أَنْ يَرُدَّ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَسَبْيَهُمْ فَقَالَ إِنَّ مَعِي مَنْ تَرَوْنَ وَأَحَبُّ الْحَدِيثِ إِلَيَّ أَصْدَقُهُ فَاخْتَارُوا إِحْدَی الطَّائِفَتَيْنِ إِمَّا الْمَالَ وَإِمَّا السَّبْيَ وَقَدْ کُنْتُ اسْتَأْنَيْتُ بِهِمْ وَکَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْتَظَرَهُمْ بِضْعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً حِينَ قَفَلَ مِنْ الطَّائِفِ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ رَادٍّ إِلَيْهِمْ إِلَّا إِحْدَی الطَّائِفَتَيْنِ قَالُوا فَإِنَّا نَخْتَارُ سَبْيَنَا فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّاسِ فَأَثْنَی عَلَی اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ إِخْوَانَکُمْ قَدْ جَائُونَا تَائِبِينَ وَإِنِّي رَأَيْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَيْهِمْ سَبْيَهُمْ فَمَنْ أَحَبَّ مِنْکُمْ أَنْ يُطَيِّبَ ذَلِکَ فَلْيَفْعَلْ وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَکُونَ عَلَی حَظِّهِ حَتَّی نُعْطِيَهُ إِيَّاهُ مِنْ أَوَّلِ مَا يُفِيئُ اللَّهُ عَلَيْنَا فَلْيَفْعَلْ فَقَالَ النَّاسُ طَيَّبْنَا لَکَ ذَلِکَ قَالَ إِنَّا لَا نَدْرِي مَنْ أَذِنَ مِنْکُمْ مِمَّنْ لَمْ يَأْذَنْ فَارْجِعُوا حَتَّی يَرْفَعَ إِلَيْنَا عُرَفَاؤُکُمْ أَمْرَکُمْ فَرَجَعَ النَّاسُ فَکَلَّمَهُمْ عُرَفَاؤُهُمْ ثُمَّ رَجَعُوا إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرُوهُ أَنَّهُمْ طَيَّبُوا وَأَذِنُوا فَهَذَا الَّذِي بَلَغَنَا عَنْ سَبْيِ هَوَازِنَ وَقَالَ أَنَسٌ قَالَ عَبَّاسٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَادَيْتُ نَفْسِي وَفَادَيْتُ عَقِيلًا
ابن ابی مریم لیث عقیل ابن شہاب عروہ مروان اور مسور بن مخزمہ سے روایت کرتے ہیں ان دونوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب ہوازن کا وفد آیا تو ان لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ان کا مال اور ان کے قیدی واپس کئے جائیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میرے ساتھ اور لوگ بھی ہیں جنہیں تم دیکھ رہے ہو اور مجھے سچی بات سب سے زیادہ پسند ہے چنانچہ دو باتوں میں سے ایک اختیار کرو یا تو مال لو یا قیدی لو اور میں نے اسی لئے ان کی تقسیم میں تاخیر کی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کا دس راتوں سے زائد تک انتظار کیا تھا پھر طائف سے واپس ہوئے تھے جب لوگوں کو معلوم ہو گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو چیزوں میں سے صرف ایک ہی چیز واپس کریں گے لوگوں نے عرض کیا کہ ہم قیدیوں کو اختیار کرتے ہیں (قیدیوں کو لینا چاہتے ہیں) نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور اللہ کی تعریف بیان کی جس کا وہ مستحق ہے پھر فرمایا تمہارے بھائی ہمارے پاس توبہ کر کے آئے ہیں اور میرا خیال ہے کہ میں ان کو ان کے قیدی واپس کر دوں اور جو تم میں سے یہ خوشی سے کرنا چاہے تو کرے اور جو اپنا حصہ واپس نہ کرنا چاہے تو (انتظار کرے) یہاں تک کہ ہم اس کو مال غنیمت میں سے دیں گے جو سب سے پہلے ہم کو اللہ دے گا تو ایسا کرے لوگوں نے کہا کہ ہم بخوشی ایسا کرنے کو تیار ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہمیں معلوم نہیں کہ کس نے اجازت دی ہے اور کس نے اجازت نہیں دی اس لئے تم واپس جاؤ یہاں تک کہ تمہارے سردار تمہارے پاس تمہارا معاملہ پیش کریں لوگ واپس چلے گئے ان سے ان کے سرداروں نے گفتگو کی پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ لوگ اسی پر راضی ہیں اور اس کی اجازت دے دی ہے زہری کا بیان ہے کہ ہوازن کے قیدیوں کے متعلق مجھے یہی حال معلوم ہوا ہے اور انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا میں نے اپنا اور عقیل کا فدیہ دیا۔
Narrated Marwan and Al-Miswar bin Makhrama:
When the delegates of the tribe of Hawazin came to the Prophet and they requested him to return their properties and captives. The Prophet stood up and said to them, "I have other people with me in this matter (as you see) and the most beloved statement to me is the true one; you may choose either the properties or the prisoners as I have delayed their distribution." The Prophet had waited for them for more than ten days since his arrival from Ta'if. So, when it became evident to them that the Prophet was not going to return them except one of the two, they said, "We choose our prisoners." The Prophet got up amongst the people and glorified and praised Allah as He deserved and said, "Then after, these brethren of yours have come to us with repentance, and I see it logical to return them the captives. So, whoever amongst you likes to do that as a favor, then he can do it, and whoever of you likes to stick to his share till we recompense him from the very first war booty which Allah will give us, then he can do so (i.e. give up the present captives)." The people unanimously said, "We do that (return the captives) willingly." The Prophet said, "We do not know which of you has agreed to it and which have not, so go back and let your leaders forward us your decision." So, all the people then went back and discussed the matter with their leaders who returned and informed the Prophet that all the people had willingly given their consent to return the captives. This is what has reached us about the captives of Hawazin. Narrated Anas that 'Abbas said to the Prophet, "I paid for my ransom and Aqil's ransom."