بالا خانوں میں بلند اور پست جھروکوں اور روشندان بنانے کا بیان ۔
راوی: یحیی بن بکیر , لیث , عقیل , ابن شہاب عبیداللہ بن عبداللہ بن ابوثور , عبداللہ بن عباس
حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ بُکَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ لَمْ أَزَلْ حَرِيصًا عَلَی أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ الْمَرْأَتَيْنِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّتَيْنِ قَالَ اللَّهُ لَهُمَا إِنْ تَتُوبَا إِلَی اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُکُمَا فَحَجَجْتُ مَعَه فَعَدَلَ وَعَدَلْتُ مَعَهُ بِالْإِدَاوَةِ فَتَبَرَّزَ حَتَّی جَائَ فَسَکَبْتُ عَلَی يَدَيْهِ مِنْ الْإِدَاوَةِ فَتَوَضَّأَ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَنْ الْمَرْأَتَانِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّتَانِ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُمَا إِنْ تَتُوبَا إِلَی اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُکُمَا فَقَالَ وَا عَجَبِي لَکَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ عَائِشَةُ وَحَفْصَةُ ثُمَّ اسْتَقْبَلَ عُمَرُ الْحَدِيثَ يَسُوقُهُ فَقَالَ إِنِّي کُنْتُ وَجَارٌ لِي مِنْ الْأَنْصَارِ فِي بَنِي أُمَيَّةَ بْنِ زَيْدٍ وَهِيَ مِنْ عَوَالِي الْمَدِينَةِ وَکُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُولَ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَنْزِلُ يَوْمًا وَأَنْزِلُ يَوْمًا فَإِذَا نَزَلْتُ جِئْتُهُ مِنْ خَبَرِ ذَلِکَ الْيَوْمِ مِنْ الْأَمْرِ وَغَيْرِهِ وَإِذَا نَزَلَ فَعَلَ مِثْلَهُ وَکُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ نَغْلِبُ النِّسَائَ فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَی الْأَنْصَارِ إِذَا هُمْ قَوْمٌ تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَأْخُذْنَ مِنْ أَدَبِ نِسَائِ الْأَنْصَارِ فَصِحْتُ عَلَی امْرَأَتِي فَرَاجَعَتْنِي فَأَنْکَرْتُ أَنْ تُرَاجِعَنِي فَقَالَتْ وَلِمَ تُنْکِرُ أَنْ أُرَاجِعَکَ فَوَاللَّهِ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ليُرَاجِعْنَهُ وَإِنَّ إِحْدَاهُنَّ لَتَهْجُرُهُ الْيَوْمَ حَتَّی اللَّيْلِ فَأَفْزَعَنِي فَقُلْتُ خَابَتْ مَنْ فَعَلَ مِنْهُنَّ بِعَظِيمٍ ثُمَّ جَمَعْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي فَدَخَلْتُ عَلَی حَفْصَةَ فَقُلْتُ أَيْ حَفْصَةُ أَتُغَاضِبُ إِحْدَاکُنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْيَوْمَ حَتَّی اللَّيْلِ فَقَالَتْ نَعَمْ فَقُلْتُ خَابَتْ وَخَسِرَتْ أَفَتَأْمَنُ أَنْ يَغْضَبَ اللَّهُ لِغَضَبِ رَسُولِهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَهْلِکِينَ لَا تَسْتَکْثِرِي عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا تُرَاجِعِيهِ فِي شَيْئٍ وَلَا تَهْجُرِيهِ وَاسْأَلِينِي مَا بَدَا لَکِ وَلَا يَغُرَّنَّکِ أَنْ کَانَتْ جَارَتُکَ هِيَ أَوْضَأَ مِنْکِ وَأَحَبَّ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ عَائِشَةَ وَکُنَّا تَحَدَّثْنَا أَنَّ غَسَّانَ تُنْعِلُ النِّعَالَ لِغَزْوِنَا فَنَزَلَ صَاحِبِي يَوْمَ نَوْبَتِهِ فَرَجَعَ عِشَائً فَضَرَبَ بَابِي ضَرْبًا شَدِيدًا وَقَالَ أَنَائِمٌ هُوَ فَفَزِعْتُ فَخَرَجْتُ إِلَيْهِ وَقَالَ حَدَثَ أَمْرٌ عَظِيمٌ قُلْتُ مَا هُوَ أَجَائَتْ غَسَّانُ قَالَ لَا بَلْ أَعْظَمُ مِنْهُ وَأَطْوَلُ طَلَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَائَهُ قَالَ قَدْ خَابَتْ حَفْصَةُ وَخَسِرَتْ کُنْتُ أَظُنُّ أَنَّ هَذَا يُوشِکُ أَنْ يَکُونَ فَجَمَعْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي فَصَلَّيْتُ صَلَاةَ الْفَجْرِ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ مَشْرُبَةً لَهُ فَاعْتَزَلَ فِيهَا فَدَخَلْتُ عَلَی حَفْصَةَ فَإِذَا هِيَ تَبْکِي قُلْتُ مَا يُبْکِيکِ أَوَلَمْ أَکُنْ حَذَّرْتُکِ أَطَلَّقَکُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ لَا أَدْرِي هُوَ ذَا فِي الْمَشْرُبَةِ فَخَرَجْتُ فَجِئْتُ الْمِنْبَرَ فَإِذَا حَوْلَهُ رَهْطٌ يَبْکِي بَعْضُهُمْ فَجَلَسْتُ مَعَهُمْ قَلِيلًا ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ فَجِئْتُ الْمَشْرُبَةَ الَّتِي هُوَ فِيهَا فَقُلْتُ لِغُلَامٍ لَهُ أَسْوَدَ اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ فَدَخَلَ فَکَلَّمَ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ خَرَجَ فَقَالَ ذَکَرْتُکَ لَهُ فَصَمَتَ فَانْصَرَفْتُ حَتَّی جَلَسْتُ مَعَ الرَّهْطِ الَّذِينَ عِنْدَ الْمِنْبَرِ ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ فَجِئْتُ فَذَکَرَ مِثْلَهُ فَجَلَسْتُ مَعَ الرَّهْطِ الَّذِينَ عِنْدَ الْمِنْبَرِ ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ فَجِئْتُ الْغُلَامَ فَقُلْتُ اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ فَذَکَرَ مِثْلَهُ فَلَمَّا وَلَّيْتُ مُنْصَرِفًا فَإِذَا الْغُلَامُ يَدْعُونِي قَالَ أَذِنَ لَکَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ فَإِذَا هُوَ مُضْطَجِعٌ عَلَی رِمَالِ حَصِيرٍ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ فِرَاشٌ قَدْ أَثَّرَ الرِّمَالُ بِجَنْبِهِ مُتَّکِئٌ عَلَی وِسَادَةٍ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ ثُمَّ قُلْتُ وَأَنَا قَائِمٌ طَلَّقْتَ نِسَائَکَ فَرَفَعَ بَصَرَهُ إِلَيَّ فَقَالَ لَا ثُمَّ قُلْتُ وَأَنَا قَائِمٌ أَسْتَأْنِسُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ رَأَيْتَنِي وَکُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ نَغْلِبُ النِّسَائَ فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَی قَوْمٍ تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ فَذَکَرَهُ فَتَبَسَّمَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قُلْتُ لَوْ رَأَيْتَنِي وَدَخَلْتُ عَلَی حَفْصَةَ فَقُلْتُ لَا يَغُرَّنَّکِ أَنْ کَانَتْ جَارَتُکِ هِيَ أَوْضَأَ مِنْکِ وَأَحَبَّ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ عَائِشَةَ فَتَبَسَّمَ أُخْرَی فَجَلَسْتُ حِينَ رَأَيْتُهُ تَبَسَّمَ ثُمَّ رَفَعْتُ بَصَرِي فِي بَيْتِهِ فَوَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ فِيهِ شَيْئًا يَرُدُّ الْبَصَرَ غَيْرَ أَهَبَةٍ ثَلَاثَةٍ فَقُلْتُ ادْعُ اللَّهَ فَلْيُوَسِّعْ عَلَی أُمَّتِکَ فَإِنَّ فَارِسَ وَالرُّومَ وُسِّعَ عَلَيْهِمْ وَأُعْطُوا الدُّنْيَا وَهُمْ لَا يَعْبُدُونَ اللَّهَ وَکَانَ مُتَّکِئًا فَقَالَ أَوَفِي شَکٍّ أَنْتَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ أُولَئِکَ قَوْمٌ عُجِّلَتْ لَهُمْ طَيِّبَاتُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ اسْتَغْفِرْ لِي فَاعْتَزَلَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَجْلِ ذَلِکَ الْحَدِيثِ حِينَ أَفْشَتْهُ حَفْصَةُ إِلَی عَائِشَةَ وَکَانَ قَدْ قَالَ مَا أَنَا بِدَاخِلٍ عَلَيْهِنَّ شَهْرًا مِنْ شِدَّةِ مَوْجِدَتِهِ عَلَيْهِنَّ حِينَ عَاتَبَهُ اللَّهُ فَلَمَّا مَضَتْ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ دَخَلَ عَلَی عَائِشَةَ فَبَدَأَ بِهَا فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَةُ إِنَّکَ أَقْسَمْتَ أَنْ لَا تَدْخُلَ عَلَيْنَا شَهْرًا وَإِنَّا أَصْبَحْنَا لِتِسْعٍ وَعِشْرِينَ لَيْلَةً أَعُدُّهَا عَدًّا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ وَکَانَ ذَلِکَ الشَّهْرُ تِسْعًا وَعِشْرِينَ قَالَتْ عَائِشَةُ فَأُنْزِلَتْ آيَةُ التَّخْيِيرِ فَبَدَأَ بِي أَوَّلَ امْرَأَةٍ فَقَالَ إِنِّي ذَاکِرٌ لَکِ أَمْرًا وَلَا عَلَيْکِ أَنْ لَا تَعْجَلِي حَتَّی تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْکِ قَالَتْ قَدْ أَعْلَمُ أَنَّ أَبَوَيَّ لَمْ يَکُونَا يَأْمُرَانِي بِفِرَاقِکَ ثُمَّ قَالَ إِنَّ اللَّهَ قَالَ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِکَ إِلَی قَوْلِهِ عَظِيمًا قُلْتُ أَفِي هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ فَإِنِّي أُرِيدُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ ثُمَّ خَيَّرَ نِسَائَهُ فَقُلْنَ مِثْلَ مَا قَالَتْ عَائِشَةُ
یحیی بن بکیر، لیث، عقیل، ابن شہاب عبیداللہ بن عبداللہ بن ابوثور، عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ میری یہ خواہش رہتی تھی کہ میں عمر سے ازواج نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے ان دو بیویوں کے متعلق دریافت کروں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا إِنْ تَتُوبَا إِلَی اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُکُمَا الخ (اگر تم دونوں توبہ کر لو، تو خیر تمہارے دل کج ہو گئے ہیں) میں ان کے ساتھ حج کو گیا وہ راستہ سے ہٹ گئے تو میں بھی ان کے ساتھ ایک چھاگل لے کر مڑا انہوں نے رفع حاجت کی یہاں تک کہ واپس آئے تو میں نے ان کے دونوں ہاتھوں پر چھا گل سے پانی ڈالا انہوں نے وضو کیا تو میں نے پوچھا یا امیرالمومینن نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویوں میں وہ کون سی دو عورتیں تھیں جن کے متعلق إِنْ تَتُوبَا إِلَی اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُکُمَا الخ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا انہوں نے کہا اے ابن عباس تعجب ہے تم پر، اس سے مراد عائشہ اور حفصہ ہیں پھر حضرت عمر متوجہ ہو کر پورا قصہ بیان کرنے لگے اور فرمایا کہ میں اور میرے ایک انصاری پڑوسی بنی امیہ بن زید کے محلہ میں رہتے تھے جو مدینہ کے عوالی میں تھا اور ہم دونوں باری باری سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آتے تھے ایک دن وہ جاتے ایک دن میں جاتا، جب میں جاتا تو اس دن کی خبر اور حالت انصاری سے بیان کرتا اور جب وہ جاتے تو وہ بھی اسی طرح کرتے اور ہم قریش کے لوگ عورتوں پر غالب رہتے تھے، جب ہم انصار کے پاس آئے تو دیکھا کہ ان کی عورتیں ان پر غالب ہیں، ہماری عورتیں بھی انصار کی عورتوں کا طریقہ سیکھنے لگیں، میں اپنی بیوی پر ایک بار چلایا، تو اس نے مجھ کو جواب دیا، اس کا جواب دینا مجھے ناگوار گزرا تو اس نے کہا میرا جواب دینا تمہیں ناگوار کیوں گزرتا ہے، واللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں جواب دیتی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بیوی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رات تک جدا رہتی ہے، میں یہ سن کر گھبرایا اور میں نے کہا جس نے ایسا کیا وہ بہت نقصان میں ہے، پھر میں نے اپنے کپڑے پہنے اور میں حفصہ کے پاس آیا اور کہا اے حفصہ کیا تم میں سے کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات تک ناراض رکھتی ہے؟ حفصہ نے کہا ہاں، میں نے کہا خسارہ میں رہی اور تباہ ہوگئی کیا تجھے ڈر نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ناراض ہونے سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوگا، اور تو ہلاک ہوجائے گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ گفتگو نہ کر اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بات کا جواب دے اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا ہو، اور جس چیز کی خواہش ہو مجھ سے مانگ اور تجھے دھوکہ نہ ہو، تیری پڑوسن تجھ سے زیادہ حسین ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ پیاری ہے، اس سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو مراد لیا اور اس زمانہ میں ہم لوگوں میں اس کا چرچا تھا کہ غسان کے لوگ ہم سے جنگ کرنے کے لئے گھوڑوں کی نعل بندی کر رہے ہیں (تیاری کر رہے ہیں) میرے ساتھی (انصاری) اپنی باری کے دن (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس) گئے، عشاء کے وقت واپس ہوئے، میرے دروازہ پر زور سے دستک دی اور کہا کیا عمر سو رہے ہیں؟ میں گھبرا کر ان کے پاس نکل کر آیا، تو انہوں نے بیان کیا کہ ایک بڑا حادثہ ہوگیا، میں نے پوچھا کیا غسان کے لوگ آگئے؟ انہوں نے کہا نہیں، بلکہ اس سے بھی بڑا اور سخت حادثہ ہوا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔ میں نے کہا حفصہ تو گھاٹے میں اور نقصان میں رہی۔ مجھے تو پہلے ہی گمان تھا کہ ایسا ہونے والا ہے میں نے اپنے کپڑے پہنے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فجر کی نماز ادا کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بالا خانے میں تشریف لے گئے اور میں وہاں تنہائی میں حفصہ کے پاس گیا تو دیکھا وہ رو رہی ہے، میں نے پوچھا کیوں رو رہی ہے؟ کیا میں نے تجھے پہلے ہی نہیں ڈرایا تھا، کیا تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق دے دی؟ حفصہ نے کہا معلوم نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت بالا خانے میں ہیں۔ میں باہر نکلا اور منبر کے پاس آیا تو دیکھا کہ منبر کے گرد لوگ بیٹھے ہیں اور بعض رو رہے ہیں، میں ان کے ساتھ تھوڑی دیر بیٹھ گیا پھر مجھ پر میرے خیال نے غلبہ کیا تو میں اس بالاخانے کے پاس آیا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے میں نے آپ کے ایک سیاہ لڑکے سے کہا کہ عمر کے لئے اجازت مانگ، تو وہ لڑکا اندر گیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کی، پھر باہر آیا تو کہا، کہ میں نے آپ کا تذکرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، چنانچہ میں لوٹ آیا اور اس گروہ کے پاس جا کر بیٹھ گیا، جو منبر کے پاس تھا، پھر مجھ پر رنج نے غلبہ کیا تو میں اس لڑکے کے پاس آیا اور میں نے کہا عمر کے لئے اجازت مانگو، پھر اس نے وہی بیان کیا میں اس گروہ کے پاس بیٹھ گیا جو منبر کے پاس بیٹھا تھا، پھر مجھ سے نہ رہا گیا اور وہی خیال غالب ہوا۔ تو میں اس لڑکے کے پاس آیا اور کہا کہ عمر کے لئے اجازت مانگو۔ پھر اس نے اسی طرح بیان کیا، جب میں گھر واپس ہونے کے لئے مڑا، تو یکایک لڑکے نے مجھے پکارا، اور کہا کہ تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی ہے، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا، تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خالی بوریے پر لیٹے ہوئے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اور بوریے کے درمیان کوئی بستر نہ تھا اور بوریے کے نشان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر پڑگئے تھے اور چمڑے کے ایک تکیہ سے ٹیک لگائے ہوئے تھے، اس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا، پھر میں نے کھڑے کھڑے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نگاہ میری طرف اٹھائی اور فرمایا نہیں، پھر میں نے کھڑے کھڑے ہی صرف دل بہلانے کو کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھیں ہم قریش لوگ عورتوں پر غالب رہتے تھے، پھر جب ہم ایسی قوم کے پاس آئے کہ ان پر ان کی عورتیں غالب تھیں، پھر سارا ماجرا بیان کیا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے پھر میں نے عرض کیا کاش آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھتے کہ میں حفصہ کے پاس گیا، تو میں نے اس سے کہا تو اس بات سے بے خبر نہ رہ ، کہ تیری پڑوسن حضرت عائشہ تجھ سے زیادہ حسین ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ محبوب ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکراۓ جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسکراتے ہوئے دیکھا تو میں بیٹھ گیا پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں نظر دوڑا کر دیکھا تو تین گچی کھالوں کے سوا کوئی چیز نظر نہیں آئی، میں نے عرض کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے دعا کیجئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر وسعت کرے اس لئے کہ فارس اور روم والوں کو وسعت دی گئی ہے اور انہیں دنیا ( کی نعمت) دی گئی ہے، حالانکہ وہ اللہ کی عبادت نہیں کرتے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکیہ لگائے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابن خطاب کیا تمہیں اس بات میں شک ہے کہ وہ لوگ ایسی قوم ہیں جنہیں ان کی نیکیوں کی جزا دنیاوی زندگی میں ہی دے دی گئی ہے، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لئے دعائے مغفرت فرمائیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس راز کے باعث اپنی بیویوں سے جدا ہوگئے، جو حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر ظاہر کردیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ان عورتوں کے پاس ایک مہینہ تک نہیں جاؤں گا، اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان پر بہت زیادہ غصہ آیا جب اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر عتاب کیا جب انتیس دن گزر گئے، تو سب سے پہلے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو قسم کھائی تھی کہ ہمارے پاس ایک مہینہ تک نہ آئیں گے اور ابھی ہم پر انتیس راتیں ہی گزری ہیں، جنہیں میں شمار کر رہی ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے اور وہ مہینہ انتیس دن ہی کا تھا، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ تخییر کی آیت نازل ہوئی تو سب سے پہلے مجھی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تجھ سے ایک بات بیان کرتا ہوں، یہ ضروری نہیں کہ تو فورا جواب دے جب تک کہ تو اپنے والدین سے مشورہ نہ کرے، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ میرے والدین مجھ کو فراق کا مشورہ نہ دیں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت (يٰ اَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَاُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا) 33۔ الأحزاب : 28) تک تلاوت کی، میں نے عرض کیا اس باب میں اپنے والدین سے کیا صلاح لوں گی، میں تو وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور دار آخرت کو پسند کرتی ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام عورتوں کو اختیار دیا تو ان سب نے وہی جواب دیا جو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دیا تھا۔
Narrated 'Abdullah bin 'Abbas:
I had been eager to ask 'Umar about the two ladies from among the wives of the Prophet regarding whom Allah said (in the Qur'an saying): If you two (wives of the Prophet namely Aisha and Hafsa) turn in repentance to Allah your hearts are indeed so inclined (to oppose what the Prophet likes) (66.4), till performed the Hajj along with 'Umar (and on our way back from Hajj) he went aside (to answer the call of nature) and I also went aside along with him carrying a tumbler of water. When he had answered the call of nature and returned. I poured water on his hands from the tumbler and he performed ablution. I said, "O Chief of the believers! ' Who were the two ladies from among the wives of the Prophet to whom Allah said:
'If you two return in repentance (66.4)? He said, "I am astonished at your question, O Ibn 'Abbas. They were Aisha and Hafsa."
Then 'Umar went on relating the narration and said. "I and an Ansari neighbor of mine from Bani Umaiya bin Zaid who used to live in 'Awali Al-Medina, used to visit the Prophet in turns. He used to go one day, and I another day. When I went I would bring him the news of what had happened that day regarding the instructions and orders and when he went, he used to do the same for me. We, the people of Quraish, used to have authority over women, but when we came to live with the Ansar, we noticed that the Ansari women had the upper hand over their men, so our women started acquiring the habits of the Ansari women. Once I shouted at my wife and she paid me back in my coin and I disliked that she should answer me back. She said, 'Why do you take it ill that I retort upon you? By Allah, the wives of the Prophet retort upon him, and some of them may not speak with him for the whole day till night.' What she said scared me and I said to her, 'Whoever amongst them does so, will be a great loser.' Then I dressed myself and went to Hafsa and asked her, 'Does any of you keep Allah's Apostle angry all the day long till night?' She replied in the affirmative. I said, 'She is a ruined losing person (and will never have success)! Doesn't she fear that Allah may get angry for the anger of Allah's Apostle and thus she will be ruined? Don't ask Allah's Apostle too many things, and don't retort upon him in any case, and don't desert him. Demand from me whatever you like, and don't be tempted to imitate your neighbor (i.e. 'Aisha) in her behavior towards the Prophet), for she (i.e. Aisha) is more beautiful than you, and more beloved to Allah's Apostle.
In those days it was rumored that Ghassan, (a tribe living in Sham) was getting prepared their horses to invade us. My companion went (to the Prophet on the day of his turn, went and returned to us at night and knocked at my door violently, asking whether I was sleeping. I was scared (by the hard knocking) and came out to him. He said that a great thing had happened. I asked him: What is it? Have Ghassan come? He replied that it was worse and more serious than that, and added that Allah's Apostle had divorced all his wives. I said, Hafsa is a ruined loser! I expected that would happen some day.' So I dressed myself and offered the Fajr prayer with the Prophet. Then the Prophet entered an upper room and stayed there alone. I went to Hafsa and found her weeping. I asked her, 'Why are you weeping? Didn't I warn you? Have Allah's Apostle divorced you all?' She replied, 'I don't know. He is there in the upper room.' I then went out and came to the pulpit and found a group of people around it and some of them were weeping. Then I sat with them for some time, but could not endure the situation. So I went to the upper room where the Prophet was and requested to a black slave of his: "Will you get the permission of (Allah's Apostle) for Umar (to enter)? The slave went in, talked to the Prophet about it and came out saying, 'I mentioned you to him but he did not reply.' So, I went and sat with the people who were sitting by the pulpit, but I could not bear the situation, so I went to the slave again and said: "Will you get he permission for Umar? He went in and brought the same reply as before. When I was leaving, behold, the slave called me saying, "Allah's Apostle has granted you permission." So, I entered upon the Prophet and saw him lying on a mat without wedding on it, and the mat had left its mark on the body of the Prophet, and he was leaning on a leather pillow stuffed with palm fires. I greeted him and while still standing, I said: "Have you divorced your wives?' He raised his eyes to me and replied in the negative. And then while still standing, I said chatting: "Will you heed what I say, 'O Allah's Apostle! We, the people of Quraish used to have the upper hand over our women (wives), and when we came to the people whose women had the upper hand over them…"
'Umar told the whole story (about his wife). "On that the Prophet smiled." 'Umar further said, "I then said, 'I went to Hafsa and said to her: Do not be tempted to imitate your companion ('Aisha) for she is more beautiful than you and more beloved to the Prophet.' The Prophet smiled again. When I saw him smiling, I sat down and cast a glance at the room, and by Allah, I couldn't see anything of importance but three hides. I said (to Allah's Apostle) "Invoke Allah to make your followers prosperous for the Persians and the Byzantines have been made prosperous and given worldly luxuries, though they do not worship Allah?' The Prophet was leaning then (and on hearing my speech he sat straight) and said, 'O Ibn Al-Khatttab! Do you have any doubt (that the Hereafter is better than this world)? These people have been given rewards of their good deeds in this world only.' I asked the Prophet . 'Please ask Allah's forgiveness for me. The Prophet did not go to his wives because of the secret which Hafsa had disclosed to 'Aisha, and he said that he would not go to his wives for one month as he was angry with them when Allah admonished him (for his oath that he would not approach Maria). When twenty-nine days had passed, the Prophet went to Aisha first of all. She said to him, 'You took an oath that you would not come to us for one month, and today only twenty-nine days have passed, as I have been counting them day by day.' The Prophet said, 'The month is also of twenty-nine days.' That month consisted of twenty-nine days. 'Aisha said, 'When the Divine revelation of Choice was revealed, the Prophet started with me, saying to me, 'I am telling you something, but you needn't hurry to give the reply till you can consult your parents." 'Aisha knew that her parents would not advise her to part with the Prophet . The Prophet said that Allah had said:–
'O Prophet! Say To your wives; If you desire The life of this world And its glitter, … then come! I will make a provision for you and set you free In a handsome manner. But if you seek Allah And His Apostle, and The Home of the Hereafter, then Verily, Allah has prepared For the good-doers amongst you A great reward.' (33.28) 'Aisha said, 'Am I to consult my parents about this? I indeed prefer Allah, His Apostle, and the Home of the Hereafter.' After that the Prophet gave the choice to his other wives and they also gave the same reply as 'Aisha did."