قبائل عرب کو سورت فاتحہ پڑھ کر پھو نکنے کے عوض اجرت دئے جانے کا بیان اور ابن عباس نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا آپ نے فرمایا کہ سب سے زیادہ اجرت لینے کے لائق اللہ کی کتاب ہے اور شعبی نے کہا کہ معلم شرط نہ کرے لیکن اگر کوئی چیز اسے دی جائے تو وہ اسے قبول کرے اور حکم نے کہا کہ میں نے کسی کے متعلق نہیں سنا کہ معلم کی اجرت کو مکروہ سمجھا ہو اور حسن نے دس درہم دئے اور ابن سیرین نے تقسیم کرنے والے کی اجرت میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا اور کہا سحت فیصلہ میں رشوت لینے کو کہا جاتا ہے اور لوگ اندازہ کرنے میں اجرت دیتے تھے ۔
راوی: ابو النعمان , ابوعوانہ , ابوبشر , ابوالمتوکل , ابوسعید
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ أَبِي بِشْرٍ عَنْ أَبِي الْمُتَوَکِّلِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ انْطَلَقَ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفْرَةٍ سَافَرُوهَا حَتَّی نَزَلُوا عَلَی حَيٍّ مِنْ أَحْيَائِ الْعَرَبِ فَاسْتَضَافُوهُمْ فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمْ فَلُدِغَ سَيِّدُ ذَلِکَ الْحَيِّ فَسَعَوْا لَهُ بِکُلِّ شَيْئٍ لَا يَنْفَعُهُ شَيْئٌ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لَوْ أَتَيْتُمْ هَؤُلَائِ الرَّهْطَ الَّذِينَ نَزَلُوا لَعَلَّهُ أَنْ يَکُونَ عِنْدَ بَعْضِهِمْ شَيْئٌ فَأَتَوْهُمْ فَقَالُوا يَا أَيُّهَا الرَّهْطُ إِنَّ سَيِّدَنَا لُدِغَ وَسَعَيْنَا لَهُ بِکُلِّ شَيْئٍ لَا يَنْفَعُهُ فَهَلْ عِنْدَ أَحَدٍ مِنْکُمْ مِنْ شَيْئٍ فَقَالَ بَعْضُهُمْ نَعَمْ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرْقِي وَلَکِنْ وَاللَّهِ لَقَدْ اسْتَضَفْنَاکُمْ فَلَمْ تُضَيِّفُونَا فَمَا أَنَا بِرَاقٍ لَکُمْ حَتَّی تَجْعَلُوا لَنَا جُعْلًا فَصَالَحُوهُمْ عَلَی قَطِيعٍ مِنْ الْغَنَمِ فَانْطَلَقَ يَتْفِلُ عَلَيْهِ وَيَقْرَأُ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ فَکَأَنَّمَا نُشِطَ مِنْ عِقَالٍ فَانْطَلَقَ يَمْشِي وَمَا بِهِ قَلَبَةٌ قَالَ فَأَوْفَوْهُمْ جُعْلَهُمْ الَّذِي صَالَحُوهُمْ عَلَيْهِ فَقَالَ بَعْضُهُمْ اقْسِمُوا فَقَالَ الَّذِي رَقَی لَا تَفْعَلُوا حَتَّی نَأْتِيَ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَذْکُرَ لَهُ الَّذِي کَانَ فَنَنْظُرَ مَا يَأْمُرُنَا فَقَدِمُوا عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَکَرُوا لَهُ فَقَالَ وَمَا يُدْرِيکَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ ثُمَّ قَالَ قَدْ أَصَبْتُمْ اقْسِمُوا وَاضْرِبُوا لِي مَعَکُمْ سَهْمًا فَضَحِکَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ وَقَالَ شُعْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ سَمِعْتُ أَبَا الْمُتَوَکِّلِ بِهَذَا
ابو النعمان، ابوعوانہ، ابوبشر، ابوالمتوکل، ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کی ایک جماعت سفر کے لئے روانہ ہوئی یہاں تک کہ عرب کے ایک قبیلہ میں پہنچی اور ان لوگوں سے چاہا کہ مہمانی کریں انہوں نے مہمانی کرنے سے انکار کر دیا اس قبیلہ کے سردار کو بچھو نے کاٹ لیا لوگوں نے ہر طرح کی کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا تو ان میں سے بعض نے کہا کہ تم اگر ان لوگوں کے پاس جاتے جو اترے ہیں تو شاید ان میں کسی کے پاس کچھ ہو چنانچہ وہ لوگ آئے اور ان سے کہنے لگے کہ اے لوگو! ہمارے سردار کو بچھو نے کاٹ لیا ہے اور ہم نے ہر طرح کی تدبیریں کیں لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا کیا تم میں سے کسی کو کوئی تدبیر معلوم ہے ان میں سے بعض نے کہا ہاں واللہ میں جھاڑ پھونک کرتا ہوں لیکن ہم نے تم لوگوں سے مہمانی طلب کی لیکن تم نے ہماری مہمانی نہیں کی اس لئے اللہ کی قسم میں جھاڑ پھونک نہیں کروں گا جب تک کہ ہمارے لئے اس کا معاوضہ نہ کرو چنانچہ انہوں نے بکریوں کے ایک ریوڑ پر مصالحت کی یعنی اجرت مقرر کی ایک صحابی اٹھ کر گئے اور سورت الحمد پڑھ کر پھونکنے لگے اور فورا اچھا ہو گیا گویا کوئی جانور رسی سے کھول دیا گیا ہو اور وہ اس طرح چلنے لگا کہ اسے کوئی تکلیف ہی نہ تھی اس نے کہا کہ ان کو وہ معاوضہ دے دو جو ان سے طے کیا گیا تھا ان میں سے بعض نے کہا کہ ان بکریوں کو بانٹ لو جنہوں نے منتر پڑھا تھا انہوں نے کہا ایسا نہ کرو جب تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس نہ پہنچ جائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ واقعہ بیان کریں جو گزرا پھر دیکھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا حکم، دیتے ہیں وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں کس طرح معلوم ہوا کہ سورت فاتحہ ایک منتر ہے پھر فرمایا تم نے ٹھیک کیا تم تقسیم کرلو اور اس میں ایک حصہ میرا بھی لگاؤ اور یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہنس پڑے اور شعبہ نے کہا مجھ سے ابوبشر نے بیان کیا میں نے ابوالمتوکل سے یہ حدیث سنی ہے۔
Narrated Abu Said:
Some of the companions of the Prophet went on a journey till they reached some of the 'Arab tribes (at night). They asked the latter to treat them as their guests but they refused. The chief of that tribe was then bitten by a snake (or stung by a scorpion) and they tried their best to cure him but in vain. Some of them said (to the others), "Nothing has benefited him, will you go to the people who resided here at night, it may be that some of them might possess something (as treatment)," They went to the group of the companions (of the Prophet ) and said, "Our chief has been bitten by a snake (or stung by a scorpion) and we have tried everything but he has not benefitted. Have you got anything (useful)?" One of them replied, "Yes, by Allah! I can recite a Ruqya, but as you have refused to accept us as your guests, I will not recite the Ruqya for you unless you fix for us some wages for it." They agrees to pay them a flock of sheep. One of them then went and recited (Suratul-Fatiha): 'All the praises are for the Lord of the Worlds' and puffed over the chief who became all right as if he was released from a chain, and got up and started walking, showing no signs of sickness.
They paid them what they agreed to pay. Some of them (i.e. the companions) then suggested to divide their earnings among themselves, but the one who performed the recitation said, "Do not divide them till we go to the Prophet and narrate the whole story to him, and wait for his order." So, they went to Allah's Apostle and narrated the story. Allah's Apostle asked, "How did you come to know that Surat-ul-Fatiha was recited as Ruqya?" Then he added, "You have done the right thing. Divide (what you have earned) and assign a share for me as well." The Prophet smiled thereupon.