نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ کے لئے مرثیہ کہا۔
راوی: عبداللہ بن یوسف , مالک , ابن شہاب , عامر بن سعد بن ابی وقاص
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِکٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ مِنْ وَجَعٍ اشْتَدَّ بِي فَقُلْتُ إِنِّي قَدْ بَلَغَ بِي مِنْ الْوَجَعِ وَأَنَا ذُو مَالٍ وَلَا يَرِثُنِي إِلَّا ابْنَةٌ أَفَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثَيْ مَالِي قَالَ لَا فَقُلْتُ بِالشَّطْرِ فَقَالَ لَا ثُمَّ قَالَ الثُّلُثُ وَالثُّلُثُ کَبِيرٌ أَوْ کَثِيرٌ إِنَّکَ أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَکَ أَغْنِيَائَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً يَتَکَفَّفُونَ النَّاسَ وَإِنَّکَ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَةً تَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللَّهِ إِلَّا أُجِرْتَ بِهَا حَتَّی مَا تَجْعَلُ فِي فِي امْرَأَتِکَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أُخَلَّفُ بَعْدَ أَصْحَابِي قَالَ إِنَّکَ لَنْ تُخَلَّفَ فَتَعْمَلَ عَمَلًا صَالِحًا إِلَّا ازْدَدْتَ بِهِ دَرَجَةً وَرِفْعَةً ثُمَّ لَعَلَّکَ أَنْ تُخَلَّفَ حَتَّی يَنْتَفِعَ بِکَ أَقْوَامٌ وَيُضَرَّ بِکَ آخَرُونَ اللَّهُمَّ أَمْضِ لِأَصْحَابِي هِجْرَتَهُمْ وَلَا تَرُدَّهُمْ عَلَی أَعْقَابِهِمْ لَکِنْ الْبَائِسُ سَعْدُ بْنُ خَوْلَةَ يَرْثِي لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ مَاتَ بِمَکَّةَ
عبداللہ بن یوسف، مالک، ابن شہاب، عامر بن سعد بن ابی وقاص اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے سال ہماری اس بیماری میں عیادت کرتے تھے جو اس سال مجھے بہت زیادہ ہوگئی تھی، میں نے عرض کیا مجھے بیماری ہوگئی اور میں مالدار ہوں اور میرے وارث سوائے میری بیٹی کے اور کوئی نہیں۔ کیا میں اپنا دو تہائی مال صدقہ نہ کردوں ؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے عرض کیا کہ نصف، آپ نے فرمایا کہ نہیں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ تہائی اور تہائی بھی بڑی ہے یا فرمایا کہ زیادہ ہے۔ تو اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑے اس سے بہتر ہے کہ انہیں محتاج چھوڑے کہ لوگوں سے سوال کرتے پھریں اور تم خرچ نہیں کرتے ہو اللہ کی رضامندی کی خاطر مگر اس پر تمہیں اجر دیا جائے گا، یہاں تک کہ جو لقمہ تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو، پھر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں اپنے ساتھیوں کے بعد مکہ میں پیچھے چھوڑ دیا جاؤں گا؟ آپ نے فرمایا تم کبھی نہیں چھوڑے جاؤ گے مگر اس سے تمہارے درجہ اور بلندی میں زیادتی ہوگی پھر ممکن ہے کہ اگر تم پیچھے چھوڑ دیئے گئے تو تم سے ایک قوم فائدہ اٹھائے گی اور دوسری قوم نقصان اٹھائے گی اے اللہ میرے اصحاب کی ہجرت کو پختہ اور کامل کردے اور ان کو پیچھے نہ لوٹا لیکن تنگ حال سعد بن خولہ کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم افسوس کرتے تھے وہ مکہ میں وفات پاگئے
Narrated 'Amir bin Sad bin Abi Waqqas:
That his father said, "In the year of the last Hajj of the Prophet I became seriously ill and the Prophet used to visit me inquiring about my health. I told him, 'I am reduced to this state because of illness and I am wealthy and have no inheritors except a daughter, (In this narration the name of 'Amir bin Sad is mentioned and in fact it is a mistake; the narrator is 'Aisha bint Sad bin Abi Waqqas). Should I give two-thirds of my property in charity?' He said, 'No.' I asked, 'Half?' He said, 'No.' then he added, 'One-third, and even one-third is much. You'd better leave your inheritors wealthy rather than leaving them poor, begging others. You will get a reward for whatever you spend for Allah's sake, even for what you put in your wife's mouth.' I said, 'O Allah's Apostle! Will I be left alone after my companions have gone?' He said, 'If you are left behind, whatever good deeds you will do will up-grade you and raise you high. And perhaps you will have a long life so that some people will be benefited by you while others will be harmed by you. O Allah! Complete the emigration of my companions and do not turn them renegades.' But Allah's Apostle felt sorry for poor Sad bin Khaula as he died in Mecca." (but Sad bin Abi Waqqas lived long after the Prophet (p.b.u.h).)
________________________________________